Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَيَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبۡلَ الۡحَسَنَةِ وَقَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِمُ الۡمَثُلٰتُ‌ؕ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوۡ مَغۡفِرَةٍ لِّـلنَّاسِ عَلٰى ظُلۡمِهِمۡ‌ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿6﴾
اور جو تجھ سے ( سزا کی طلبی میں ) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی یقیناً ان سے پہلے سزائیں ( بطور مثال ) گزر چکی ہیں اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بے جا ظلم پر بھی اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔
و يستعجلونك بالسية قبل الحسنة و قد خلت من قبلهم المثلت و ان ربك لذو مغفرة للناس على ظلمهم و ان ربك لشديد العقاب
They impatiently urge you to bring about evil before good, while there has already occurred before them similar punishments [to what they demand]. And indeed, your Lord is full of forgiveness for the people despite their wrongdoing, and indeed, your Lord is severe in penalty.
Aur jo tujh say ( saza ki talbi mein ) jaldi ker rahey hain rahat say pehlay hi yaqeenan inn say pehlay sazayen ( bator misal ) guzar chuki hain aur be-shak tera rab albata bakhshney wala hai logon kay bey jaa zulm per bhi. Aur yeh bhi yaqeeni baat hai kay tera rab bari sakht saza deney wala bhi hai.
اور یہ لوگ خوشحالی ( کی میعاد ختم ہونے ) سے پہلے تم سے بدحالی کی جلدی مچائے ہوئے ہیں ( ١١ ) حالانکہ ان سے پہلے ایسے عذاب کے واقعات گذر چکے ہیں جس نے لوگوں کو رسوا کر ڈالا تھا ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کے لیے ان کی زیادتی کے باوجود تمہارے رب کی ذات ایک معاف کرنے والی ذات ہے ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا عذاب بڑا سخت ہے ۔ ( ١٢ )
اور تم سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں رحمت سے پہلے ( ف۱۹ ) اور ان اگلوں کی سزائیں ہوچکیں ( ف۲۰ ) اور بیشک تمہارا رب تو لوگوں کے ظلم پر بھی انھیں ایک طرح کی معافی دیتا ہے ( ف۲۱ ) اور بیشک تمہارے رب کا عذاب سخت ہے ( ف۲۲ )
یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں 14 حالانکہ ان سے پہلے ﴿ جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی﴾ عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا ربّ سخت سزا دینے والا ہے ۔
اور یہ لوگ رحمت سے پہلے آپ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں ، حالانکہ ان سے پہلے کئی عذاب گزر چکے ہیں ، اور ( اے حبیب! ) بیشک آپ کا رب لوگوں کے لئے ان کے ظلم کے باوجود بخشش والا ہے اور یقیناً آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ( بھی ) ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :14 کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو؟ اس کے آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ( خدایا ہمارا حساب تو ابھی کر دے ، قیامت پر نہ اٹھا رکھ ) ۔ اور کبھی کہتے کہ اَلَّھُمّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلِیْمٍ ۔ ( خدایا اگر یہ باتیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے ) ۔ اس آیت میں کفار انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں ، اللہ کی طرف ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کر دیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فورا گرفت کر ڈالی جائے ۔
منکرین قیامت یہ منکرین قیامت کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب جلد ہی کیوں نہیں لاتے ؟ کہتے تھے کہ اے اپنے آپ پر اللہ کی وحی نازل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ، ہمارے نزدیک تو تو پاگل ہے ۔ اگر بالفرض سچا ہے تو عذاب کے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ؟ اس کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ فرشتے حق کے اور فیصلے کے ساتھ ہی آیا کرتے ہیں ، جب وہ وقت آئے گا اس وقت ایمان لانے یا توبہ کرنے یا نیک عمل کرنے کی فرصت ومہلت نہیں ملے گی ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے آیت ( ویستعجونک دو آیتوں تک ۔ اور جگہ ہے سال سائل الخ اور آیت میں ہے کہ بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار اس سے خوف کھا رہے ہیں اور اسے بر حق جان رہے ہیں ۔ اسی طرح اور آیت میں فرمان ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور المناک عذاب نازل فرما ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کفر وانکار کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا آنا محال جان کر اس قدر نڈر اور بےخوف ہو گئے تھے کہ عذاب کے اترنے کی آرزو اور طلب کیا کرتے تھے ۔ یہاں فرمایا کہ ان سے پہلے کے ایسے لوگوں کی مثالیں ان کے سامنے ہیں کہ کس طرح وہ عذاب کی پکڑ میں آ گئے ۔ کہہ دو کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حلم وکرم ہے کہ گناہ دیکھتا ہے اور فورا نہیں پکڑتا ورنہ روئے زمین پر کسی کو چلتا پھرتا نہ چھوڑے ، دن رات خطائیں دیکھتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ عذاب پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اس کے عذاب بھی بڑے خطرناک نہایت سخت اور بہت درد دکھ دینے والے ہیں ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ١٤٧؁ ) 6- الانعام:147 ) اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ تمہارا رب وسیع رحمتوں والا ہے لیکن اس کے آئے ہوئے عذاب گنہگاروں پر سے نہیں ہٹائے جا سکتے ۔ اور فرمان ہے کہ تیرا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ، بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے اور آیت میں ہے آیت ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ ) 15- الحجر:49 ) میرے بندوں کو خبر کر دے کہ میں غفور رحیم ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک ہیں ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سے آیتیں ہیں جن میں امید وبیم ، خوف ولالچ ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حسن بن عثمان ابو حسان راوی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اللہ تعالیٰ عزوجل کا دیدار کیا دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سامنے کھڑے اپنے ایک امتی کی شفاعت کر رہے ہیں جس پر فرمان باری ہوا کہ کیا تجھے اتنا کافی نہیں کہ میں نے سورہ رعد میں تجھ پر آیت ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝ ) 13- الرعد:6 ) نازل فرمائی ہے ۔ ابو حسان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔