Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ كُلُّ اُنۡثٰى وَمَا تَغِيۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَمَا تَزۡدَادُ ‌ؕ وَكُلُّ شَىۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ‏ ﴿8﴾
مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے ۔
الله يعلم ما تحمل كل انثى و ما تغيض الارحام و ما تزداد و كل شيء عنده بمقدار
Allah knows what every female carries and what the wombs lose [prematurely] or exceed. And everything with Him is by due measure.
Mada apney shikam mein jo kuch rakhti hai ussay Allah bakhoobi janta hai aur pet ka ghatna barhna bhi her cheez uss kay pass andazay say hai.
جس کسی مادہ کو جو حمل ہوتا ہے ، اللہ اس کو بھی جانتا ہے ، اور ماؤں کے رحم میں جو کوئی کمی بیشی ہوتی ہے اس کو بھی ، ( ١٤ ) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے ۔
اللہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے ( ف۲۵ ) اور پیٹ جو کچھ گھٹتے بڑھتے ہیں ( ف۲٦ ) اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ( ف۲۵ )
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے ۔ 17 ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے ۔
اﷲ جانتا ہے جو کچھ ہر مادہ اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے اور رحم جس قدر سکڑتے اور جس قدر بڑھتے ہیں ، اور ہر چیز اس کے ہاں مقرر حد کے ساتھ ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :17 اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اس کی قوتوں اور قابلیتوں ، اور اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے ، اللہ براہ راست نگرانی میں ہوتا ہے ۔
علم الہٰی اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان ، ان کے پیٹ کے بچوں کا ، ان کے حمل کا ، اللہ کو علم ہے کہ پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے یعنی مرد ہے یا عورت ؟ اچھا ہے یا برا ؟ نیک ہے یا بد ؟ عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟ چنانچہ ارشاد ہے آیت ( ھو اعلم بکم ) الخ وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو ، الخ اور فرمان ہے آیت ( يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰث ) 39- الزمر:6 ) وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں ۔ ارشاد ہے آیت ( ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ ) الخ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے نطفے کو خون بستہ کیا ، خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا ۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کر دیا ۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا ، پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا پس بہترین خالق با برکت ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے ، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے ، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے ، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہو گا یا عورت ؟ شق ہو گا یا سعید ؟ روزی کیا ہے ؟ عمر کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ بارش کب برسے گی اس کا علم بہی کسی کو نہیں کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کب قائم ہو گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے ۔ پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہو جانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے ۔ یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے ۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو ۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے ۔ نو ماہ سے گھٹنا ، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے ۔ حضرت ضحاک کا بیان ہے کہ میں دو سال ماں کے پیٹ میں رہا جب پیدا ہوا تو میرے اگلے دو دانت نکل آئے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ حمل کی انتہائی مدت دو سال کی ہوتی ہے ۔ کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھرا رہنا ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہو جاتے ہیں مثل ایام حیض کے ۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے ۔ حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بےغم ، بےکھٹکے اور باآرام ہوتا ہے ۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے ، جو بےطلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے ، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے ، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بےطلب ، بےجستجو ، بےرنج وغم ، بےفکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے ۔ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے ۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لئے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے ۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا ۔ افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی ، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی ۔ اب تو بالغ اور عقل مند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاوں گا ؟ موت ہو یا قتل ہو ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے ، آپ کا تشریف لانا میرے لئے خوشی کا باعث ہے ۔ آپ نے فرمایا جاؤ ان سے کہہ دو کہ جو اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ۔ وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے ، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لا چار اور محض بےبس ہیں ۔