Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِنۡ مَّا نُرِيَـنَّكَ بَعۡضَ الَّذِىۡ نَعِدُهُمۡ اَوۡ نَـتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيۡكَ الۡبَلٰغُ وَعَلَيۡنَا الۡحِسَابُ‏ ﴿40﴾
ان سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا آپ کو ہم فوت کرلیں تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے ۔ حساب تو ہمارے ذمہ ہی ہے ۔
و ان ما نرينك بعض الذي نعدهم او نتوفينك فانما عليك البلغ و علينا الحساب
And whether We show you part of what We promise them or take you in death, upon you is only the [duty of] notification, and upon Us is the account.
Inn say kiye huye wadon mein say koi agar hum aap ko dikha den ya aap ko hum fot ker len to aap per to sirf phoncha dena hi hai. Hisab to humaray zimmay hi hai.
اور جس بات کی دھمکی ہم ان ( کافروں ) کو دیتے ہیں ، چاہے اس کا کوئی حصہ ہم تمہیں ( تمہاری زندگی ہی میں ) دکھا دیں ، یا ( اس سے پہلے ہی ) تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ۔ بہرحال تمہارے ذمے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے ، اور حساب لینے کی ذمہ داری ہماری ہے ۔ ( ٣٩ ) ۔
اور اگر ہمیں تمہیں دکھا دیں کوئی وعدہ ( ف۱۰۹ ) جو انھیں دیا جاتا ہے یا پہلے ہی ( ف۱۱۰ ) اپنے پاس بلائیں تو بہرحال تم پر تو ضرور پہنچانا ہے اور حساب لینا ( ف۱۱۱ ) ہمارا ذمہ ( ف۱۱۲ )
اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں ، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔ 59
اور اگر ہم ( اس عذاب کا ) کچھ حصہ جس کا ہم نے ان ( کافروں ) سے وعدہ کیا ہے آپ کو ( حیاتِ ظاہری میں ہی ) دکھا دیں یا ہم آپ کو ( اس سے قبل ) اٹھا لیں ( یہ دونوں چیزیں ہماری مرضی پر منحصر ہیں ) آپ پر تو صرف ( احکام کے ) پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :59 مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اس دعوت حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے ۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو ۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل بات ان مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی ۔
آپ کے انتقال کے بعد تیرے دشمنوں پر جو ہمارے عذاب آنے والے ہیں وہ ہم تیری زندگی میں لائیں تو اور تیرے انتقال کے بعد لائے تو تجھے کیا ؟ تیرا کام تو صرف ہمارے پیغام پہنچا دینا ہے وہ تو کر چکا ۔ ان کا حساب ان کا بدلہ ہمارے ہاتھ ہے ۔ تو صرف انہیں نصیحت کر دے تو ان پر کوئی جاروغہ اور نگہبان نہیں ۔ جو منہ پھیرے گا اور کفر کرے گا اسے اللہ ہی بڑی سزاؤں میں داخل کر دے گا ان کا لوٹنا تو ہماری طرف ہی ہے اور ان کا حساب بھی ہمارے ذمے ہے ۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تیرے قبضے میں دیتے آ رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آباد اور عالی شان محل کھنڈر اور ویرانے بنتے جا رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان کافروں کو دباتے چلے آ رہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں خرابیاں آتی جا رہی ہیں ؟ لوگ مرتے جا رہے ہیں زمین اجڑتی جا رہی ہے ؟ خود زمین ہی اگر تنگ ہوتی جاتی تو تو انسان کو چھپڑ ڈالنا بھی محال ہو جاتا مقصد انسان کا اور درختوں کا کم ہوتے رہنا ہے ۔ مراد اس سے زمین کی تنگی نہیں بلکہ لوگوں کی موت ہے علماء فقہا اور بھلے لوگوں کی موت بھی زمین کی بربادی ہے ۔ عرب شاعر کہتا ہے الارض تحیا اذا ما عاش عالمہا متی یمت عالم منہا یمت طرف کالارض تحیا اذا ما الغیث حل بہا وان ابی عارفی اکنا فہا التلف یعنی جہاں کہیں جو عالم دین ہے وہاں کی زمین کی زندگی اسی سے ہے ۔ اس کی موت اس زمین کی ویرانی اور خرابی ہے ۔ جیسے کہ بارش جس زمین پر برسے لہلہانے لگتی ہے اور اگر نہ برسے تو سوکھنے اور بنجر ہونے لگتی ہے ۔ پس آیت میں مراد اسلام کا شرک پر غالب آنا ہے ، ایک کے بعد ایک بستی کو تابع کرنا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( ولقد اھلکنا ما حولکم من القری ، ) الخ ، یہی قول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی پسندیدہ ہے ۔