Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة اِبْرٰهِیْم نام : آیت ۳۵ کے فقرے وَاِذْ قَالَ اِبْرٰ ھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا لْبَلَدَ اٰ مِنًا ، سے ماخوذ ہے ۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے ، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے ۔ یعنی وہ سورہ جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے ۔ سورہ رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے ۔ خصُوصًا آیت ۱۳ کے الفاظ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْ دُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ( انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ) کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تل گئے تھے ۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویہ پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ( ہم ظالموں کو ہلاک کر کے رہیں گے ) اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ ( ہم ان ظالموں کو ختم کر نے کے بعد تم ہی کو اس سر زمین میں آباد کریں گے ) ۔ مرکزی مضمون اور مُدّعا : جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کر نے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کی فہمائش اور تنبیہ ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورہ میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی ، عناد ، مزاحمت ، شرارت اور ظلم وجود میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا ۔