Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
الۤرٰ‌ كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ اِلَيۡكَ لِـتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ  ۙ بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِۙ‏ ﴿1﴾
الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ۔
الر كتب انزلنه اليك لتخرج الناس من الظلمت الى النور باذن ربهم الى صراط العزيز الحميد
Alif, Lam, Ra. [This is] a Book which We have revealed to you, [O Muhammad], that you might bring mankind out of darknesses into the light by permission of their Lord - to the path of the Exalted in Might, the Praiseworthy -
Alif-laam-raa! Yeh aali shaan kitab hum ney aap ki taraf utari hai kay aap logon ko andheron say ujalay ki taraf layen inn kay perwerdigar kay hukum say zabardast aur tareefon walay Allah ki taraf.
الر ۔ ( اے پیغمبر ) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے ، تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ ، یعنی اس ذات کے راستے کی طرف جس کا اقتدار سب پر غالب ہے ، ( اور ) جو ہر تعریف کا مستحق ہے ۔
ایک کتاب ہے ( ف۲ ) کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو ( ف۳ ) اندھیریوں سے ( ف٤ ) اجالے میں لاؤ ( ف۵ ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ ( ف٦ ) کی طرف جو عزت والا سب خوبیوں والا ہے
ا ۔ ل ۔ ر ، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ ، ان کے رب کی توفیق سے ، اس خدا کے راستے 1 پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود 2 ہے ،
الف ، لام ، را ( حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ) ، یہ ( عظیم ) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ( کفر کی ) تاریکیوں سے نکال کر ( ایمان کے ) نور کی جانب لے آئیں ( مزید یہ کہ ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف ( لائیں ) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :1 یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو ۔ بخلاف اس کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا ، چاہے وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تم ان کو اپنے رب کے اذن یا اس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلغ ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو ، راہ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اس کے بس میں نہیں ہے ۔ اس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اس کے اذن پر ہے ۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے ، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا ۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو ، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو ، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو ، کھلی آنکھوں سے دیکھے ، کھلے کانوں سے سنے ، صاف دماغ سے سوچے ، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :2 حمید کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے ، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے ۔ محمود کسی شخص کو اسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو ۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے ، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات ، سزاوار حمد اور مستحق تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا ، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اپنی ذات میں آپ محمود کیا ہے ۔
حوف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) ، میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟