Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
مَثَلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ‌ اَعۡمَالُهُمۡ كَرَمَادِ ۨاشۡتَدَّتۡ بِهِ الرِّيۡحُ فِىۡ يَوۡمٍ عَاصِفٍ‌ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا كَسَبُوۡا عَلٰى شَىۡءٍ‌ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِيۡدُ‏ ﴿18﴾
ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا ، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہونگے ، یہی دورکی گمراہی ہے ۔
مثل الذين كفروا بربهم اعمالهم كرماد اشتدت به الريح في يوم عاصف لا يقدرون مما كسبوا على شيء ذلك هو الضلل البعيد
The example of those who disbelieve in their Lord is [that] their deeds are like ashes which the wind blows forcefully on a stormy day; they are unable [to keep] from what they earned a [single] thing. That is what is extreme error.
Unn logon ki misal jihon ney apney paalney walay say kufur kiya unn kay aemaal misil uss raakh kay hain jiss per tez hawa aandhi walay din chalay. Jo bhi unhon ney kiya uss mein say kissi cheez per qadir na hongay yehi door ki gumrahi hai.
جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کی روش اختیار کی ہے ، ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں جسے آندھی طوفان والے دن میں ہوا تیزی سے اڑا لے جائے ، ( ١٤ ) انہوں نے جو کچھ کمائی کی ہوگی ، اس میں سے کچھ ان کے ہاتھ نہیں آئے گا ۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے ۔
اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں ( ف ٤۲ ) جیسے راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آیا آندھی کے دن میں ( ف٤۳ ) ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگا ، یہی ہے دور کی گمراہی ،
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو ۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے ۔ 25 یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے ۔
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ، ان کی مثال یہ ہے کہ ان کے اعمال ( اس ) راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز آندھی کے دن سخت ہوا کا جھونکا آگیا ، وہ ان ( اَعمال ) میں سے جو انہوں نے کمائے تھے کسی چیز پر قابو نہیں پاسکیں گے ۔ یہی بہت دور کی گمراہی ہے
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :25 یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی ، بے وفائی ، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی ، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں ، ان کا پورا کارنامہ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایہ عمل آخرکار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہوگا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدت دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا ، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اس کا ایک ایک درہ منتشر ہو کر رہ گیا ۔ ان کی نظر فریب تہذیب ، ان کا شاندار تمدن ، ان کی حیرت انگیز صنعتیں ، ان کی زبردست سلطنتیں ، ان کی عالیشان یونیورسٹیاں ، ان کے علوم و فنون اور ادب لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے ، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے بڑے بڑے خیراتی اور رفائی کارنامے بھی ، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں ، سب کے سب آخرکار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں ۔
بے سود اعمال کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی ھبا منشورا ہو گئے ۔ آیت ( مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ١١٧؁ ) 3-آل عمران:117 ) یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ایمان والو اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لئے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بےپایہ اور بےثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ۔