سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :27
دعوے پر دلیل پیش کرنے کے بعد فورا ہی یہ فقرہ نصیحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک شبہہ کا ازالہ بھی ہے جو اوپر کی دو ٹوک بات سن کر آدمی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے ۔ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ اگر بات وہی ہے جو ان آیتوں میں فرمائی گئی ہے تو یہاں ہر باطل پرست اور غلط کار آدمی فنا کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نادان! کیا تو سمجھتا ہے کہ اسے فنا کر دینا اللہ کے لیے کچھ دشوار ہے ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ ہے کہ اس کی شرارتوں کے باوجود اللہ نے محض اقربا پروری کی بنا پر اسے مجبورا چھوٹ دے رکھی ہو؟ اگر یہ بات نہیں ہے ، اور تو خود جانتا ہے کہ نہیں ہے ، تو پھر تجھے سمجھنا چاہیے کہ ایک باطل پرست اور غلط کار قوم ہر وقت اس خطرے میں مبتلا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ کام کرنے کا موقع دے دیا جائے ۔ اس خطرے کے عملا رونما ہونے میں اگر دیر لگ رہی ہے تو اس غلط فہمی کے نشے میں مست نہ ہو جا کہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ مہلت کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان اور اپنے باطل نظام فکر و عمل کی ناپائیداری کو محسوس کر کے اسے جلدی سے جلدی پائیدار بنیادوں پر قائم کر لے ۔