Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
وَقَالَ الشَّيۡطٰنُ لَـمَّا قُضِىَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمۡ وَعۡدَ الۡحَـقِّ وَوَعَدْتُّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُكُمۡ‌ؕ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُكُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِىۡ‌ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِىۡ وَلُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ‌ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِكُمۡ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِىَّ‌ ؕ اِنِّىۡ كَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَكۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ‌ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿22﴾
جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا شیطان توکہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے ان کے خلاف کیا میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی ، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
و قال الشيطن لما قضي الامر ان الله وعدكم وعد الحق و وعدتكم فاخلفتكم و ما كان لي عليكم من سلطن الا ان دعوتكم فاستجبتم لي فلا تلوموني و لوموا انفسكم ما انا بمصرخكم و ما انتم بمصرخي اني كفرت بما اشركتمون من قبل ان الظلمين لهم عذاب اليم
And Satan will say when the matter has been concluded, "Indeed, Allah had promised you the promise of truth. And I promised you, but I betrayed you. But I had no authority over you except that I invited you, and you responded to me. So do not blame me; but blame yourselves. I cannot be called to your aid, nor can you be called to my aid. Indeed, I deny your association of me [with Allah ] before. Indeed, for the wrongdoers is a painful punishment."
Jab aur kaam ka faisla ker diya hayega to shetan kahey ga kay Allah ney to tumhen sacha wada diya tha aur mein ney tum say jo waday kiye thay unn ka khilaf kiya mera tum per koi dabao to tha hi nahi haan mein ney tumhen pukara aur tum ney meri maan li pus tum mujhay ilzam na lagao bulkay khud apney aap ko malamat kero na mein tumhara faryad rus aur na tum meri faryad ko phonchney walay mein to siray say manta hi nahi kay tum mujhay iss say pehlay Allah ka shareek mantay rahey yaqeenan zalimon kay liye dard naak azab hai.
اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان ( اپنے ماننے والوں سے ) کہے گا : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی ۔ اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں ( اللہ کی نافرمانی کی ) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی ۔ لہذا اب مجھے ملامت نہ کرو ۔ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ نہ تمہاری فریاد پر میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں ، اور نہ میری فریاد پر تم میری مدد کرسکتے ہو ۔ تم نے اس سے پہلے مجھے اللہ کا جو شریک مان لیا تھا ، ( آج ) میں نے اس کا انکار کردیا ہے ۔ ( ١٦ ) جن لوگوں نے یہ ظلم کیا تھا ، ان کے حصے میں تو اب دردناک عذاب ہے ۔
اور شیطان کہے گا جب فیصلہ ہوچکے گا ( ف۵۳ ) بیشک اللہ نے تم کو سچا وعدہ دیا تھا ( ف۵٤ ) اور میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا ( ف۵۵ ) وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا اور میرا تم پر کچھ قابو نہ تھا ( ف۵٦ ) مگر یہی کہ میں نے تم کو ( ف۵۷ ) بلایا تم نے میری مان لی ( ف۵۸ ) تو اب مجھ پر الزام نہ رکھو ( ف۵۹ ) خود اپنے اوپر الزام رکھو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو ، وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا ( ف٦۰ ) میں اس سے سخت بیزار ہوں ، بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے ،
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا ، 30 میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا ۔ 31 اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری ۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا 32 میں اس سے بری الذّمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے ۔
اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے ( بھی ) تم سے وعدہ کیا تھا ، سو میں نے تم سے وعدہ خلافی کی ہے ، اور مجھے ( دنیا میں ) تم پر کسی قسم کا زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں ( باطل کی طرف ) بلایا سو تم نے ( اپنے مفاد کی خاطر ) میری دعوت قبول کی ، اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ ( خود ) اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ نہ میں ( آج ) تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو ۔ اس سے پہلے جو تم مجھے ( اللہ کا ) شریک ٹھہراتے رہے ہو بیشک میں ( آج ) اس سے انکار کرتا ہوں ۔ یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :30 یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا ۔ اس واقعے سے مجھے ہرگز انکار نہیں ہے ۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں ، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی ۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے ، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے ، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے ، سب محض ڈھکوسلا ہے ، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے ، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو ، نجات کا ذمہ ان کا ، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا ، یہ سب محض دھوکا تھا ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :31 یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا ، تو ضرور اسے پیش فرمائیے ، جو چور کی سزا سو میری ۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے ۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوت حق کے مقابلے میں اپنی دعوت باطل آپ کے سامنے پیش کی ، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا ، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا ۔ ماننے اور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے ۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی ۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں ۔ مگر آپ نے جو اس پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں ۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اٹھانی چاہیے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :32 ”یہاں پھر شرک اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرک عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے ۔ سب اس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں ۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے ، اور اسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے کوئی صاحب جواب میں فرمائیں کہ یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالی نے نقل فرمایا ہے ۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالی خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا ۔ دوسرے شرک عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اور آگے آ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رہبان کو ارباب من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں ( التوبہ ۔ آیت ۱۳۷ ) ۔ خواہشات نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہش نفس کو خدا بنا لیا ہے ( الفرقان ۔ آیت نمبر ٤۳ ) ۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں ( یٰسین ۔ آیت ٦۰ ) ۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذن خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ”شریک“ ہیں ( الشوریٰ ۔ آیت نمبر ۲۱ ) ۔ یہ سب کیا اسی شرک عملی کی نظیریں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃ کسی غیر اللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے ۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر ، یا احکام خداوندی کے علی الرغم ، اس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے ۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملا یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی رو سے وہ اس کو خدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے ، چاہے شرعا اس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷ ۔ الکہف حاشیہ ۵۰ ) ۔
طوطا چشم دشمن شیطان اللہ تعالیٰ جب بندوں کی قضا سے فارغ ہو گا ، مومن جنت میں کافر دوزخ میں پہنچ جائیں گے ، اس وقت ابلیس ملعون جہنم میں کھڑا ہو کر ان سے کہے گا کہ اللہ کے وعدے سچے اور بر حق تھے ، رسولوں کی تابعداری میں ہی نجات اور سلامتی تھی ، میرے وعدے تو دھوکے تھے میں تو تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لئے سبز باغ دکھایا کرتا تھا ۔ میری باتیں بےدلیل تھیں میرا کلام بےحجت تھا ۔ میرا کوئی زور غلبہ تم پر نہ تھا تم تو خواہ مخواہ میری ایک آواز پر دوڑ پڑے ۔ میں نے کہا تم نے مان لیا رسولوں کی سچے وعدے ان کی بادلیل آواز ان کی کامل حجت والی دلیلیں تم نے ترک کر دیں ۔ ان کی مخالفت اور میری موافقت کی ۔ جس کا نتیجہ آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے مجھے ملامت نہ کرنا بلکہ اپنے نفس کو ہی الزام دینا ، گناہ تمہارا اپنا ہے خود تم نے دلیلیں چھوڑیں تم نے میری بات مانی آج میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا نہ تمہیں بچا سکوں نہ نفع پہنچا سکوں ۔ میں تو تمہارے شرک کے باعث تمہارا منکر ہوں میں صاف کہتا ہوں کہ میں شریک اللہ نہیں جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ ) الخ ، اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے ؟ جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو قبول نہ کر سکیں بلکہ اس کے پکارنے سے محض غافل ہوں اور محشر کے دن ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر بن جائیں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( کلا سیکفرون بعبادتہم ) الخ ، یقینا وہ لوگ ان کی عبادتوں سے منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے یہ ظالم لوگ ہیں اس لئے کہ حق سے منہ پھیر لیا باطل کے پیرو کار بن گئے ایسے ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں ۔ پس ظاہر ہے کہ ابلیس کا یہ کلام دوزخیوں سے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہوگا ۔ تاکہ وہ حسرت و افسوس میں اور بڑھ جائیں ۔ لیکن ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اگلوں پچھلوں کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان میں فیصلے کر دے گا فیصلوں کے وقت عام گھبراہٹ ہو گی ۔ مومن کہیں گے ہم میں فیصلے ہو رہے ہیں ، اب ہماری سفارش کے لئے کون کھڑا ہو گا ؟ پس حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے ۔ مجھے کھڑا ہونے کی اللہ تبارک و تعالیٰ اجازت دے گا اسی وقت میری مجلس سے پاکیزہ تیز اور عمد خوشبو پھیلے گی کہ اس سے بہتر اور عمدہ خوشبو کھبی کسی نے نہ سونگھی ہو گی میں چل کر رب العالمین کے پاس آؤں گا میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پیر کے انگوٹھے تک نورانی ہو جائے گا ۔ اب میں سفارش کروں گا اور جناب حق تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا یہ دیکھ کر کافر لوگ کہیں گے کہ چلو بھئی ہم بھی کسی کو سفارشی بنا کر لے چلیں اور اس کے لئے ہمارے پاس سوائے ابلیس کے اور کون ہے ؟ اسی نے ہم کو بہکایا تھا ۔ چلو اسی سے عرض کریں ۔ آئیں گے ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے تو شفیع پالیا اب تو ہماری طرف سے شفیع بن جا ۔ اس لئے کہ ہمیں گمراہ بھی تو نے ہی کیا ہے یہ سن کر یہ ملعون کھڑا ہو گا ۔ اس کی مجلس سے ایسی گندی بد بو پھیلے گی کہ اس سے پہلے کسی ناک میں ایسی بد بو نہ پہنچی ہو ۔ پھر وہ کہے گا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب جہنمی اپنا صبر اور بےصبری یکساں بتلائیں گے اس وقت ابلیس ان سے یہ کہے کا اس وقت وہ اپنی جانوں سے بھی بیزار ہو جائیں گے ندا آئے گی کہ تمہاری اس وقت کی اس بےزاری سے بھی زیادہ بےزاری اللہ کی تم سے اس وقت تھی جب کہ تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے ۔ عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تمام لوگوں کے سامنے اس دن دو شخص خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا یہ آیتیں ( ھذا یوم ینفع الصادقین ) الخ تک اسی بیان میں ہیں اور ابلیس کھڑا ہو کر کہے گا آیت ( وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ 22؁ ) 14- ابراھیم:22 ) برے لوگوں کے انجام کا اور ان کے درد و غم اور ابلیس کے جواب کا ذکر فرما کر اب نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ایمان دار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں ۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں ۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا جیسے فرمان ہے آیت ( حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ 71؀ ) 39- الزمر:71 ) ، یعنی جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے ، الخ ۔ اور آیت میں ہے ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے اور آیت میں ہے کہ وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے آیت ( دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١0 ؀ۧ ) 10- یونس:10 ) ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہوگا ۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہو گی ۔