Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصۡلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُهَا فِى السَّمَآءِۙ‏ ﴿24﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی ، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔
الم تر كيف ضرب الله مثلا كلمة طيبة كشجرة طيبة اصلها ثابت و فرعها في السماء
Have you not considered how Allah presents an example, [making] a good word like a good tree, whose root is firmly fixed and its branches [high] in the sky?
Kiya aap ney nahi dekha kay Allah Taalaa ney pakeeza baat ki misal kiss tarah biyan farmaee misil aik pakeeza darakht kay jiss ki jarr mazboot hai aur jiss ki tehniyan aasman mein hain.
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے ؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ ( زمین میں ) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے ، اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں ۔ ( ١٨ )
کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی ( ف٦۲ ) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں ،
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیّبہ 34 کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمّی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں 35 ،
کیا آپ نے نہیں دیکھا ، اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ ( زمین میں ) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :34 کلمہ طیبہ کے لفظی معنی ” پاکیزہ بات “ کے ہیں ، مگر اس سے مراد وہ قول حق اور عقیدہ صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو ۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رو سے لازما وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار ، انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کا اقرار ، اور آخرت کا اقرار ہو ، کیونکہ قرآن انہی امور کو بنیادی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :35 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظام کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے ، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانون فطرت اس سے نہیں ٹکراتا ، کسی شے کی بھی اصل اور جبلت اس سے اِبا نہیں کرتی ، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اس سے متصادم نہیں ہوتی ۔ اسی لیے زمین اور اس کا پورا نظام اس سے تعاون کرتا ہے ، اور آسمان اور اس کا پورا عالم اس کا خیر مقدم کرتا ہے ۔
لا الہ الا اللہ کی شہادت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابو بکر ہیں حضرت عمر ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ ) ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔