Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّـكُمۡ‌ ۚ وَسَخَّرَ لَـكُمُ الۡـفُلۡكَ لِتَجۡرِىَ فِى الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِهٖ‌ۚ وَسَخَّرَ لَـكُمُ الۡاَنۡهٰرَ‌ۚ‏ ﴿32﴾
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لئے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں ۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں ۔
الله الذي خلق السموت و الارض و انزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرت رزقا لكم و سخر لكم الفلك لتجري في البحر بامره و سخر لكم الانهر
It is Allah who created the heavens and the earth and sent down rain from the sky and produced thereby some fruits as provision for you and subjected for you the ships to sail through the sea by His command and subjected for you the rivers.
Allah woh hai jiss ney aasmanon aur zamin ko peda kiya hai aur aasmanon say barish barsa ker iss kay zariye say tumhari rozi kay liye phal nikaley hain aur kashtiyon ko tumharay bus mein ker diya hai kay daryaon mein uss kay hukum say chalen phiren. Ussi ney nadiyan aur nehren tumharay ikhtiyar mein ker di hain.
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے لیے پھل اگائے ، اور کشتیوں کو تمہارے لیے رام کردیا ، تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں ، اور دریاؤں کو بھی تمہاری خدمت پر لگا دیا ۔
اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل تمہارے کھانے کو پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے ( ف۷۸ ) اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کیں ، ( ف۷۹ )
اللہ وہی تو ہے 43 جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے ۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخّر کیا ،
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے ، اور اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو ( بھی ) مسخر کر دیا
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :43 یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے ، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جا رہا ہے ، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھیرائے جا رہے ہیں ، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں ۔
سب کچھ تمہارا مطیع ہے اللہ کی طرح طرح کی بیشمار نعمتوں کو دیکھو ۔ آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم ان کا پانی پیو ، پلاؤ ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو ۔ ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ، دن رات انہی کے آنے جانے سے پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں اور رب العالمین بابرکت ہے ۔ کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لئے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بےمانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ۔ طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کر سکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کر سکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تیرے ہی لئے سب حمد و ثنا سزا وار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بےپرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما ۔ بزار میں آپ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے میں گناہ ہوں گے ، تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالیٰ میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے جواب ملا کہ داؤد اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تو نے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شرک بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کر سکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بیشمار ہیں ۔