Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ‏ ﴿35﴾
۔ ( ا براہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو ) جب انہوں نے کہا اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے ۔
و اذ قال ابرهيم رب اجعل هذا البلد امنا و اجنبني و بني ان نعبد الاصنام
And [mention, O Muhammad], when Abraham said, "My Lord, make this city [Makkah] secure and keep me and my sons away from worshipping idols.
( Ibrahim ki yeh dua bhi yaad kero ) jab unhon ney kaha kay aey meray perwerdigar! Iss shehar ko aman wala bana dey aur mujhay aur meri aulad ko butt parasti say panah dey.
اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ : یا رب ! اس شہر کو پر امن بنا دیجیے ( ٢٤ ) اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچایے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں ۔ ( ٢٥ )
اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی اے میرے رب اس شہر ( ف۸۳ ) کو امان والا کردے ( ف۸٤ ) اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پوجنے سے بچا ( ف۸۵ )
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے دعا کی تھی 46 کہ پروردگار ، اس شہر 47 کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔
اور ( یاد کیجئے ) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر ( مکہ ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس ( بات ) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :46 عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب ان خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالی نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے ، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :47 یعنی مکہ ۔
حرمت وعظمت کا مالک شہر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ۔ سب سے پہلا با برکت اور باہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے ، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا ، امن و امان میں آ گیا ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا ۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے ۔ حضرت اسماعیل کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے آیت ( رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ 35؀ۭ ) 14- ابراھیم:35 ) پس اس دعا میں بلد پر لام نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ بلد کو معرف بلام لائے ۔ سورہ بقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ پھر آپ نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بےزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کر تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خلیل اللہ کا یہ قول اور حضرت روح اللہ کا قول آیت ( اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨؁ ) 5- المآئدہ:118 ) ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ آپ کو ہم آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔