Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضۡلَلۡنَ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ‌ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِىۡ فَاِنَّهٗ مِنِّىۡ‌ۚ وَمَنۡ عَصَانِىۡ فَاِنَّكَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿36﴾
اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو ، تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے ۔
رب انهن اضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فانه مني و من عصاني فانك غفور رحيم
My Lord, indeed they have led astray many among the people. So whoever follows me - then he is of me; and whoever disobeys me - indeed, You are [yet] Forgiving and Merciful.
Aey meray paalney walay mabood! Enhon ney boht say logon ko raah say bhatka diya hai. Pus meri tabeydaari kerney wala mera hai aur jo meri na farmani keray to tu boht hi moaf aur karam kerney wala hai.
میرے پروردگار ! ان بتوں نے لوگوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کیا ہے ۔ لہذا جو کوئی میری راہ پر چلے ، وہ تو میرا ہے ، اور جو میرا کہنا نہ مانے ، تو ( اس کا معاملہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں ) آپ بہت بخشنے والے بڑے مہربان ہیں ۔ ( ٢٦ )
اے میرے رب بیشک بتوں نے بہت لوگ بہکائے دیے ( ف۸٦ ) تو جس نے میرا ساتھ دیا ( ف۸۷ ) وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے ( ف۸۸ )
پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے 48 ﴿ ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا ان میں سے ﴾ جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے ۔ 49
اے میرے رب! ان ( بتوں ) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے ۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :48 یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے ۔ یہ مجازی کلام ہے ۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :49 یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں ۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ ( البقرہ ۔ آیت ۱۲٦ ) ۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اسے سزا دے ڈالیو ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ان کے معاملہ میں کیا عرض کروں ، تو غفورٌرَّحِیْم ہے ۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قوم لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ” ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا “ ( ہود ، آیت ۷٤ ) ۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ” اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“ ( المائدہ ، آیت ۱۱۸ )