سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :8
بُرج عربی زبان میں قلعے ، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں ۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحا ان بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا ۔ اس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کی طرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیارے لیے ہیں ۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالم بالا کے وہ خطے ہیں جن میں سے ہر خطے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خطے سے جدا کر رکھا ہے ۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خطے سے دوسرے خطے میں چلا جانا سخت مشکل ہے ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خطوں ( Fortified Spheres ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں ۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :9
یعنی ہر خطے میں کوئی نہ کوئی روشن سیارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح سارا عالم جگمگا اٹھا ۔ بالفاظ دیگر ہم نے اس ناپائیدار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈار بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے ، بلکہ ایک کمال درجے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے ۔ یہی مضمون ایکل دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شیْ ءٍ خَلَقَہ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خوب ہی بنائی“ ۔