سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :39
“اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی ۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اس بات کے لیے کافی تھا کہ اس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم امنڈ آئے اور علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کر دے ۔ ان کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اٹھاتا ، اور نہ ان کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی ۔ حضرت لوط علیہ السلام جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہوگا ۔
تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں ان کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ راستہ میں شام ہوگئی اور اسے مجبورا ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا ۔ اس کے ساتھ اپنا زار راہ تھا ۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی ۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا ۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا ۔ رات اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا ۔ اس نے شور مچایا ۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی ۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اسے نکال باہر کیا ۔
ایک مرتبہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا ۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے ۔ الیعزر نے اسے شرم دلائی کہ تم بےکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو ۔ مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا ۔
ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا ۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا ۔ اس پر حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے ۔
اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم ، دھوکہ باز اور بعد معاملہ تھے ۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا ۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے راٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا ۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اس کو کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے ۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرعام لوٹ لیے جاتے اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا ۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط علیہ السلام کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ۔ ( وہ پہلے سے بہت برے برے کام کر رہے تھے ) اور اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو ، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو؟ )