Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَكَ خَيۡرَا  ۖۚ اۨلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِۚ حَقًّا عَلَى الۡمُتَّقِيۡنَؕ‏ ﴿180﴾
تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے ۔
كتب عليكم اذا حضر احدكم الموت ان ترك خيرا الوصية للوالدين و الاقربين بالمعروف حقا على المتقين
Prescribed for you when death approaches [any] one of you if he leaves wealth [is that he should make] a bequest for the parents and near relatives according to what is acceptable - a duty upon the righteous.
Tum per farz ker diya gaya hai kay jab tum mein say koi marney lagay aur maal chor jata ho to apney maa baap aur qarabat daron kay liye achai kay sath waseeyat ker jaye perhezgaron per yeh haq aur sabit hai.
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ، اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے ( ١١٢ ) یہ متقی لوگوں کے ذمے ایک لازمی حق ہے ۔
تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور ( ف۳۲۰ ) یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر ،
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو ، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ 182
تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو ، تو ( اپنے ) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے ، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :182 یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا ، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا ۔ اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے ۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سُورہ نساء میں آنے والا ہے ) ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام میراث کی توضیح میں حسب ذیل دو قاعدے بیان فرمائے: ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا ، یعنی جن رشتے داروں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں ، ان کے حصوں میں نہ تو وصیت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے ، نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جا سکتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ وصیت کل جائداد کے صرف ایک تہائی حصے کی حد تک کی جا سکتی ہے ۔ ان دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسب قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے ان غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنی چاہیے ، جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں ، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاج اعانت پاتا ہو ، یا رفاہ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے ۔ بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہو کر رہ گیا ۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے ، جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے ۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے ، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں ۔ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں ۔
وصیت کی وضاحت اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے ، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے ، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا ، سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ( مسند احمد ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا ۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت ( لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا ) 4 ۔ النسآء:7 ) ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب ، حسن ، مجاہد ، عطاء ، سعید بن جبیر ، محمد بن سیرین ، عکرمہ ، زید بن اسلم ، ربیع بن انس ، قتادہ ، سدی ، مقاتل بن حیان ، طاؤس ، ابراہیم نخعی ، شریح ، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں ، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء:11 ) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن ، مسروق ، طاؤس ، ضحاک ، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر ، ربیع بن انس ، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں ، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری ، دونوں کا مطلب قریبا ایک ہو گیا ، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے ، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہ اٹھ گیا ، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہے بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گذارے راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گذاری ، قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں ، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔ خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی ، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت ( ان ترک خیرا ) فرمایا ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں ، طاؤس ، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں ۔ معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف مری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ، صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو ۔ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا ، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز ۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہدیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں ۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم ۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے ، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں ، پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت ( تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 65 ۔ الطلاق:1 ) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو ۔