Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة النَّحْل نام : آیت ٦۸ کے فقرے وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ سے ماخوذ ہے ۔ یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوع بحث کا عنوان ۔ زمانہ نزول : متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانہ نزول پر روشنی پڑتی ہے ۔ مثلًا: آیت ٤۱ کے فقرے وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی ۔ آیت ۱۰٦ مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہ الآ یہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہو کر کلمہ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے ۔ آیات ۱۱۲ – ۱۱٤ وَضَرَ بَ اللہُ مَثَلًا قَرْ یَۃً ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورے کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا ۔ اس سورہ میں آیت ۱۱۵ ۔ ایسی ہے جس کا حوالہ سورہ انعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے ، اور دوسری آیت ( نمبر ۱۱۸ ) ایسی ہے جس میں سورہ انعام کی آیت ۱٤٦ کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے ۔ ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ کا زمانہ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے ، اور اسی کی تائید سورہ کے عام انداز بیان سے بھی ہوتی ہے ۔ موضوع اور مرکزی مضمون : ”شرک کا ابطال ، توحید کا اثبات ، دعوت پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش ، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجرو توبیخ ۔ مباحث : “سورہ کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے ۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ ”جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آکیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو“ ۔ اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا ۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے ، اب اسکے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کہ بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔ اس کے بعد فورا ہی تفہیم کی تقریر شروع ہو جاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں: ( ۱ ) دل لگتے دلائل اور آفاق و انفس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے ۔ ( ۲ ) منکرین کے اعتراضات ، شکوک ، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے ۔ ( ۳ ) باطل پر اصرار اور حق کے مقابلہ میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے ۔ ( ٤ ) ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشین انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے ، اور اس سلسلہ میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا ، جس کا انہیں دعویٰ تھا ، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد ، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہییں ۔ ( ۵ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفاکاریوں کے مقابلہ میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے ۔