Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
اَتٰۤى اَمۡرُ اللّٰهِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡهُ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿1﴾
اللہ تعالٰی کا حکم آپہنچا اب اس کی جلدی نہ مچاؤ ۔ تمام پاکی اس کے لئے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں ۔
اتى امر الله فلا تستعجلوه سبحنه و تعلى عما يشركون
The command of Allah is coming, so be not impatient for it. Exalted is He and high above what they associate with Him.
Allah Taalaa ka hukum aa phoncha abb iss ki jaldi na machao. Tamam paki uss kay liye hai woh bartar hai unn sab say jinhen yeh Allah kay nazdik shareek batlatay hain.
اللہ کا حکم آن پہنچا ہے ، لہذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ ( ١ ) ۔ جو شرک یہ لوگ کر رہے ہیں ، وہ اس سے پاک اور بہت بالا و برتر ہے ۔
اب آتا ہے اللہ کا حکم تو اس کی جلدی نہ کرو ( ف۲ ) پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے ، ( ف۳ )
آگیا اللہ کا فیصلہ ، 1 اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ ، پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ 2
اللہ کا وعدہ ( قریب ) آپہنچا سو تم اس کے چاہنے میں عجلت نہ کرو ۔ وہ پاک ہے اور وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار ( اس کا ) شریک ٹھہراتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :1 یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔ اس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات کو صیغہ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا ، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”فیصلہ“ کیا تھا اور کس شکل میں آیا ؟ ہم یہ سمجھتے ہیں ( اللہ اعلم بالصواب ) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا ۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ان کے حجود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم ان کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد یا تو ان پر تباہ کن عذاب آجاتا ہے ، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفار مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے ۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :2 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو ، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ ان کا مشرکانہ مذہب ہی برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر ہماری شامت نہ آجاتی ۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو ۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو ۔
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی ۔ چاند پھٹ گیا ۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملز وم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے ۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیو نکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18؀ ) 42- الشورى:18 ) بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیو نکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔