Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَعَلٰمٰتٍ‌ؕ وَبِالنَّجۡمِ هُمۡ يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿16﴾
اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں ۔
و علمت و بالنجم هم يهتدون
And landmarks. And by the stars they are [also] guided.
Aur bhi boht si nishaniyan muqarrar farmaeen. Aur sitaron say bhi log raah hasil kertay hain.
اور ( راستوں کی پہچان کے لیے ) بہت سی علامتیں بنائی ہیں ۔ اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کرتے ہیں ۔
اور علامتیں ( ف۲۵ ) اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں ( ف۲٦ )
اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں ، 14 اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔ 15
اور ( دن کو راہ تلاش کرنے کے لئے ) علامتیں بنائیں ، اور ( رات کو ) لوگ ستاروں کے ذریعہ ( بھی ) راہ پاتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :14 یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات ( Landmarks ) سے ممتاز کیا ۔ اس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے راستےا ور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے ۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریبا مفقود ہوتے ہیں اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے ، کیونکہ وہاں نشانات راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں ۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کو رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے ۔ یہاں پھر توحید اور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیل رسالت کی طرف کر دیا گیا ہے ۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ مادی زندگی میں بھٹک جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا کم ہے ۔ پھر جس رب رحیم کو ہماری مادی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے ، میدانوں میں نشانات راہ کھڑے کرتا ہے ، صحراؤں اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمت سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کرتا ہے ، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلاح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہوگا ، اس راستے کو نمایاں کر نے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہوگا ، اور اسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہوگا ؟ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :15 یہاں تک آفاق اور انفس کی بہت سی نشانیاں جو پے در پے بیان کی گئی ہیں ان سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین اور آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے ، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے اور کہیں سے بھی شرک کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ دہریت کی بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی ۔ یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چلتا اور حجّت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا ۔ یہ اس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال ، خون اور دودھ ، گوشت اور پیٹھ ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا ، حتیٰ کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے ۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام ، اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام ، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتے ہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں ۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمدو رفت ، اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات ، کن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے اتنا گہرا ربط ہے ۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود اور یہ ان کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب ۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا ، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کا سینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلاتا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر اور تجارت کرتا پھرتا ہے ۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے ابھار اور یہ انسان کی ہستی کے لیے ان کے فائدے ۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لے کر آسمان کی بلند فضاؤں تک بے شمار علامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلاؤ اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا ۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے ، اسی نے اپنی منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے ، اسی نے اس ڈیزائن کو پیدا کیا ہے ، وہی ہر آن اس دنیا میں نت نئی چیزیں بنا بنا کر اس طرح لا رہا ہے کہ مجموعی اسکیم اور اس نظم میں ذرا فرق نہیں آتا ، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلا رہا ہے ۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے؟ یا یہ کہ اس کمال درجہ منظم ، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزا مختلف خداؤں کے آفریدہ اور مختلف خداؤں کے زیر انتظام ہیں؟