سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :22
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب کفار مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے ، یا کم از کم اس کو آپ سے آپ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے ۔
قرآن حکیم کے ارشادات کو دیرینہ کہنا کفر کی علامت ہے
ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے؟ وہی لکھ لئے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا باندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں ۔ دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقوال کے باطل ہونے کی ۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے ، کبھی شاعر ، کبھی کاھن ، کبھی مجنون ۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ مخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو موثر جادو کہا کرو ۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہو گا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لئے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لادیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے ہدایت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہوتے اور برائی کی طرف بلانے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:13 ) یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سوال ان سے قیامت کے دن ہونا ضروری ہے ۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گردنوں پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے ۔