Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
فَادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ فَلَبِئۡسَ مَثۡوَى الۡمُتَكَبِّرِيۡنَ‏ ﴿29﴾
پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا ۔
فادخلوا ابواب جهنم خلدين فيها فلبس مثوى المتكبرين
So enter the gates of Hell to abide eternally therein, and how wretched is the residence of the arrogant.
Pus abb to hameshgi kay tor per tum jahannum kay darwazon mein dakhil hojao pus kiya hi bura thikana hai ghuroor kerney walon ka.
لہذا اب ہمیشہ جہنم میں رہنے کے لیے اس کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ، کیونکہ تکبر کرنے والوں کا یہی برا ٹھکانا ہے ۔
اب جہنم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو ، تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا ،
اب جاؤ ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے ۔ 26 پس حقیقت یہی ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کے لیے ۔
پس تم دوزخ کے دروازوں سے داخل ہو جاؤ ، تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو ، سو تکبّر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :26 یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت ، جس میں قبض روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے ، قرآن ان متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثواب قبر کا ثبوت دیتی ہیں ۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازا عالم برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے ، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی ۔ منکرین حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا ۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا ۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں ۔ اور فورا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے ۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں ۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ ان کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں ۔ کیا برزخ کی زندگی ، احساس ، شعور ، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورہ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے ۔ جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے قبض روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذاب برزخ کی تصریح سورہ مومن آیت نمبر ٤۵ – ٤٦ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالی فرعون اور آل فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ” ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے ، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“ ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا ۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی ۔ اس حالت میں روح کی شعور ، احساس ، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا ، سب کچھ اس کیفیت سے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہوگی ۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال ، اور پھر اس کا جنت کی بشارت سننا ، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا ، یہ سب بھی اس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حسن کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدہ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو ۔ یہ خواب ایک لخت نفخ صور دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدان حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ ( ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا ؟ ) مگر اہل ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ( یہ وہی چیز ہے جس کا رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچا تھا ) ۔ مجرمین کا فوری احساس اس وقت یہ ہوگا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں ( جہاں بستر موت پر انہوں نے دنیا میں جان دی تھی ) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔ مگر اہل ایمان پورے ثبات قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہ اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ( اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اس چیز کو جانتے نہ تھے ) ۔