Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِىۡ يَخۡتَلِفُوۡنَ فِيۡهِ وَ لِيَـعۡلَمَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰذِبِيۡنَ‏ ﴿39﴾
اس لئے بھی کہ یہ لوگ جس چیز میں اختلاف کرتے تھے اسے اللہ تعالٰی صاف بیان کردے اور اس لئے بھی کہ خود کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں ۔
ليبين لهم الذي يختلفون فيه و ليعلم الذين كفروا انهم كانوا كذبين
[It is] so He will make clear to them [the truth of] that wherein they differ and so those who have disbelieved may know that they were liars.
Iss liye bhi kay yeh log jiss cheez mein ikhtilaf kertay thay ussay Allah Taalaa saaf biyan kerdey aur iss liye bhi kay khud kafir apna jhoota hona jaan len.
۔ ( دوبارہ زندہ کرنے کا یہ وعدہ اللہ نے اس لیے کیا ہے ) تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ان باتوں کو اچھی طرح واضح کردے جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور تاکہ کافر لوگ جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے ۔
اس لیے کہ انھیں صاف بتادے جس بات میں جھگڑتے تھے ( ف۸۱ ) اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے ( ف۸۲ )
اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ، اور منکرین حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے ۔ 35
۔ ( مُردوں کا اٹھایا جانا اس لئے ہے ) تاکہ ان کے لئے وہ ( حق ) بات واضح کر دے جس میں وہ لوگ اختلاف کرتے ہیں اور یہ کہ کافر لوگ جان لیں کہ حقیقت میں وہی جھوٹے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :35 یہ حیات بعد الموت اور قیام حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے ۔ دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے ، حقیقت کے بارے میں بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں ۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے ۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب ، الگ معاشرے ، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں ۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان ، مال ، آبرو ، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے ۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے ، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطہ نظر نہیں چھوڑا ہے ۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی تو صحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا ، راستی پر کون تھا ، اور ناراستی پر کون ۔ اس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اٹھنے کا نظر نہیں آتا ۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اٹھ نہیں سکتا ۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے ۔ اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے ۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصہ لیا ہے ۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے ۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے ۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں برے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں ۔ آخر کوئی وقت تو ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو ۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں ۔