Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَلَوۡ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلۡمِهِمۡ مَّا تَرَكَ عَلَيۡهَا مِنۡ دَآبَّةٍ وَّلٰـكِنۡ يُّؤَخِّرُهُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى‌‌ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ لَا يَسۡتَـاۡخِرُوۡنَ سَاعَةً‌ وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ‏ ﴿61﴾
اگر لوگوں کے گناہ پر اللہ تعالٰی ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا لیکن وہ تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو وہ ایک ساعت نہ پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
و لو يؤاخذ الله الناس بظلمهم ما ترك عليها من دابة و لكن يؤخرهم الى اجل مسمى فاذا جاء اجلهم لا يستاخرون ساعة و لا يستقدمون
And if Allah were to impose blame on the people for their wrongdoing, He would not have left upon the earth any creature, but He defers them for a specified term. And when their term has come, they will not remain behind an hour, nor will they precede [it].
Agar logon kay gunah per Allah Taalaa unn ki girift kerta to roy-e-zamin per aik jandar baqi na rehta lekin woh to enhen aik waqt muqarrara tal dheel deta hai jab inn ka woh waqt aajata hai to woh aik sa’at na peechay reh saktay hain aur na aagay barh saktay hain.
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ( فورا ) اپنی پکڑ میں لیتا تو روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا ، لیکن وہ ان کو ایک معین وقت تک مہلت دیتا ہے ۔ پھر جب ان کا وہ معین وقت آجائے گا تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکیں گے ۔
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر گرفت کرتا ( ف۱۲٤ ) تو زمین پر کوئی چلنے والا نہیں چھوڑتا ( ف۱۲۵ ) لیکن انھیں ایک ٹھہرائے وعدے تک مہلت دیتا ہے ( ف۱۲٦ ) پھر جب ان کا وعدہ آئے گا نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں ،
اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر فورا ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا ۔ لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے ، پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا ۔
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے عوض ( فوراً ) پکڑ لیا کرتا تو اس ( زمین ) پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں مقررہ میعاد تک مہلت دیتا ہے ، پھر جب ان کا مقرر وقت آپہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
وہ بندوں کو مہلت دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حلم و کرم لطف و رحم کا بیان ہو رہا ہے کہ بندوں کے گناہ دیکھتا ہے اور پھر بھی انہیں مہلت دیتا ہے اگر فوراً ہی پکڑے تو آج زمین پر کوئی چلتا پھرتا نظر نہ آئے ۔ انسانوں کی خطاؤں میں جانور بھی ہلاک ہو جائیں ۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے ۔ بروں کے ساتھ بھلے بھی پکڑ میں آ جائیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حلم و کرم لطف و رحم سے پردہ پوشی کر رہا ہے ، در گزر فرما رہا ہے ، معافی دے رہا ہے ۔ ایک خاص وقت تک کی مہلت دئیے ہوئے ہے ، ورنہ کیڑے اور بھنگے بھی نہ بچتے ۔ بنی آدم کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے عذاب الٰہی ایسے آتے کہ سب کو غارت کر جاتے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کوئی صاحب فرما رہے ہیں ۔ ظالم اپنا ہی نقصان کرتا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ پرند اپنے گھونسلوں میں بوجہ اس کے ظلم کے ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ ذکر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اللہ کسی نفس کو ڈھیل نہیں دیتا عمر کی زیادتی نیک اولاد سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایت فرماتا ہے پھر ان بچوں کی دعائیں ان کی قبر میں انہیں پہنچتی رہتی ہیں ، یہی ان کی عمر کی زیادتی ہے ۔ اپنے لئے یہ ظالم لڑکیاں ناپسند کریں ، شرکت نہ چاہیں اور اللہ کے لئے یہ سب روا رکھیں ۔ پھر یہ خیال کریں کہ یہ دنیا میں بھی اچھائیاں سمیٹنے والے ہیں اور اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی بھلائی ان کے لئے ہے ۔ یہ کہا کرتے تھے کہ نفع کے مستحق اس دنیا میں تو ہم ہیں ہی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ قیامت نے آنا نہیں ۔ بالفرض آئی بھی تو وہاں کی بہتری بھی ہمارے لئے ہی ہے ان کفار کو عنقریب سخت عذاب چکھنے پڑیں گے ، ہماری آیتوں سے کفر پھر آرزو یہ کہ مال و اولاد ہمیں وہاں بھی ملے گا ۔ سورہ کہف میں دو ساتھیوں کا ذکر کر تے ہوئے قرآن نے فرمایا ہے کہ وہ ظالم اپنے باغ میں جاتے ہوئے اپنے نیک ساتھی سے کہتا ہے میں تو اسے ہلاک ہو نے والا جانتا ہی نہیں نہ قیامت کا قائل ہوں اور اگر بالفرض میں دو بارہ زندہ کیا گیا تو وہاں اس سے بھی بہتر چیز دیا جاؤں گا ۔ کام برے کریں آ زو نیکی کی رکھیں ۔ کانٹے بوئیں اور پھل چاہیں ۔ کہتے ہیں کعبتہ اللہ شریف کی عمارت کو نئے سرے سے بنانے کے لئے جب ڈھایا تو بنیادوں میں سے ایک پتھر نکلا ، جس پر ایک کتبہ لکھا ہوا تھا ، جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہو اور نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ ایسا ہی ہے جیسے کانٹے بو کر انگور کی امید رکھنا ۔ پس انکی امیدیں تھیں کہ دنیا میں بھی انہیں جاہ و حشمت اور لونڈی غلام ملیں گے اور آخرت میں بھی ۔ اللہ فرماتا ہے دراصل ان کے لئے آتش دوزخ تیار ہے ۔ وہاں یہ رحمت رب سے بھلا دئیے جائیں گے اور ضائع اور برباد ہو جائیں گے آج یہ ہمارے احکام بھلائے بیٹھے ہیں ، کل انہیں ہم اپنی نعمتوں سے بھلا دیں گے ، یہ جلدی ہی جہنم نشین ہونے والے ہیں ۔