Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَاَوۡحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِىۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُيُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعۡرِشُوۡنَۙ‏ ﴿68﴾
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر ( چھتے ) بنا ۔
و اوحى ربك الى النحل ان اتخذي من الجبال بيوتا و من الشجر و مما يعرشون
And your Lord inspired to the bee, "Take for yourself among the mountains, houses, and among the trees and [in] that which they construct.
Aap kay rab ney shehad ki makhi kay dil mein yeh baat daal di kay paharon mein darakhton logon ki banaee hui unchi unchi tatiyon mein apney ghar ( chattay ) bana.
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ : تو پہاڑوں میں ، اور درختوں میں اور لوگ جو چھتریاں اٹھاتے ہیں ان میں اپنے گھر بنا ۔ ( ٢٨ )
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں ،
اور دیکھو ، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی 56 کہ پہاڑوں میں ، اور درختوں میں ، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں ، اپنے چھتے بنا
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ( خیال ) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں ( بھی ) جنہیں لوگ ( چھت کی طرح ) اونچا بناتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :56 وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے ۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء ( دل میں بات ڈال دینے ) اور الہام ( مخفی تعلیم و تلقین ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظر نہیں آتا ، اس لیے اس کو قرآن میں وحی ، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے ۔ الہام کو اولیاء اور بندگان خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے ۔ اور القاء نسبۃ عام ہے ۔ لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے ( وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا ۔ حٰمِ السجدہ ) ۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے ۔ ( یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo ۔ الزلزال ) ۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں ۔ ( اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ ۔ الانفال ) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی ( فطری تعلیم ) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں ۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے ۔ مچھلی کو تیرنا ، پرندے کو اڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے ۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسس کے بغیر جو صحیح تدبیر ، یا صائب الرائے ، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے ( وَاَوْحِیْنَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعِیْہِ ۔ القصص ) ۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے ۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں ، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں ، بڑے بڑے مدبرین ، فاتحین ، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں ، ان سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے ۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی ، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی ، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا ، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی ۔ ان بہت سی اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آرہی ہے ۔ اسے اس کے من جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے ۔
وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی سے مراد یہاں پر الہام ، ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے ۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئے کتنا مضبوط کیسا خوبصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے ۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لئے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں ، پھولوں اور گھاس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے ، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو ، چاہے بیابان کے درخت ہوں ، چاہے آ بادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں ، یہ نہ راستہ بھولے ، نہ بھٹکتی پھرے ، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے ۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں ، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے ۔ اپنے پروں سے موم بنائے ۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے ۔ ذللا کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا سالکہ کا جیسے قرآن میں آیت ( وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا يَاْكُلُوْنَ 72؀ ) 36-يس:72 ) میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے ۔ ابن اجریر دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے ۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں شہد کے رنگ مختلف ہوتے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین ۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفا بھی ہے ، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں فیہ الشفاء للناس نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا اس میں شفا ہے لوگوں کے لئے پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے ۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے ۔ مجاہد اور ابن جریر سے منقول ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفا ہے ۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفا ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں ۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے ، اسی لئے مجاہد کے اس قول کی اقتدا نہیں کی گئی ۔ ہاں قرآن کے شفا ہونے کا ذکر آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) میں ہے اور آیت ( وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ ) 10- یونس:57 ) میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ ، وہ گیا ، شہد دیا ، پھر آیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جا اور شہد پلاؤ ۔ اس نے جا کر پھر پلایا ، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جا پھر شہد دے ۔ تیسری مرتبہ شہد سے بفضل الٰہی شفا حاصل ہو گئی ۔ بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو ، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی ۔ فضلہ خارج ہونا شروع ہوا ۔ دست بڑھ گئے ۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہونا شروع ہوا پھر شہد دیا ، پیٹ صاف ہو گیا ، بلا نکل گئی اور کامل شفا بفضل الہی حاصل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جو بہ اشارہ الہی پوری ہو گئی ۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ تین چیزوں میں شفا ہے ، پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفا ہے تو پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوا نے میں جو بیماری کے مناسب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ مسلم کی حدیث میں ہے میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ نا پسند رکھتا ہوں ۔ ابن ماجہ میں ہے تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کرتے رہو شہد اور قرآن ۔ ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شفا چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھولے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضامندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفا آ جائے گی اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) یعنی ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفا ہے اور رحمت ہے اور آیت میں ہے آیت ( وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ Ḍ۝ۙ ) 50-ق:9 ) ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں ۔ اور فرمان ہے آیت ( وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا Ć۝ ) 4- النسآء:4 ) یعنی اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بیشک تم اسے کھاؤ پیو سہتا پچتا ۔ شہد کے بارے میں فرمان الہی ہے فیہ شفاء للناس شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی ۔ اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے ۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں آپ کا فرمان ہے کہ تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے سام کے ۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا موت ۔ سنوت کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو ۔ شاعر کے شعر میں یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے پھر فرماتا ہے کہ مکھی جیسی بےطاقت چیز کا تمہارے لئے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے میری عظمت ، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہونے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔