Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
ثُمَّ كُلِىۡ مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُكِىۡ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا‌ ؕ يَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِهَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُهٗ فِيۡهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿69﴾
اور ہر طرح کے میوے کھا اور اپنے رب کی آسان راہوں میں چلتی پھرتی رہ ، ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے ، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے ۔
ثم كلي من كل الثمرت فاسلكي سبل ربك ذللا يخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فيه شفاء للناس ان في ذلك لاية لقوم يتفكرون
Then eat from all the fruits and follow the ways of your Lord laid down [for you]." There emerges from their bellies a drink, varying in colors, in which there is healing for people. Indeed in that is a sign for a people who give thought.
Aur her tarah kay meway kha aur apney rab ki aasan raahon mein chalti phirti reh inn kay pait say rang barang ka mashroob nikalta hai jiss kay rang mukhtalif hain aur jiss mein logon kay liye shifa hai ghor-o-fiker kerney walon kay liye iss mein boht bari nishani hai.
پھر ہر قسم کے پھلوں سے اپنی خوراک حاصل کر ، پھر ان راستوں پر چل جو تیرے رب نے تیرے لیے آسان بنا دیے ہیں ۔ ( اسی طرح ) اس مکھی کے پیٹ سے وہ مختلف رنگوں والا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ۔ یقینا ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں ۔
پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور ( ف۱٤۲ ) اپنے رب کی راہیں چل کر تیرے لیے نرم و آسان ہیں ، ( ف۱٤۳ ) اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے ، جس میں لوگوں کی تندرستی ہے ، بیشک اس میں نشانی ہے ( ف۱٤۷ ) دھیان کرنے والوں کو ، ( ف۱٤۸ )
اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ ۔ 57 اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔ 58 یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ 59
پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر پھر اپنے رب کے ( سمجھائے ہوئے ) راستوں پر ( جو ان پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے ، دوسری مکھیوں کے لئے بھی ) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر ، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے ( وہ شہد ہے ) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں ، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے ، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :57 رب کی ہموار کی ہوئی راہوں “ کا اشارہ اس پورے نظام اور طریق کار کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے ۔ ان کے چھتوں کی ساخت ، ان کے گروہ کی تنظیم ، ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار ، ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدورفت ، ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا ، یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غور فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شکر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزارہا برس سے کام کیے چلے جا رہے ہیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :58 شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے ، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبۃ ایک مخفی بات ہے اس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا ۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے ، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس ، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے ۔ پھر شہد کا یہ خاصہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے ، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے ۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فن دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے ۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے ۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے ، اور مختلف نباتاتی دواؤں کے جوہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیحدہ علیحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہوں گے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :59 اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت کے دوسرے جز کی صداقت ثابت کرتا ہے ۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے ۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں ، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظام زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو ۔ دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو ، یہ آثار جو ہر طرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔ تم اسے ایک ان ہونی بات قرار دیتےہو ۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادہ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے ۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعوی قرار دیتے ہیں ۔ مگر مویشیوں کی ساخت ، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے ، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مل جل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں ۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے ۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں ۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد ، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں ، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نے تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟