Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَيَوۡمَ نَـبۡعَثُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا ثُمَّ لَا يُؤۡذَنُ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَلَا هُمۡ يُسۡتَعۡتَبُوۡنَ‏ ﴿84﴾
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ۔
و يوم نبعث من كل امة شهيدا ثم لا يؤذن للذين كفروا و لا هم يستعتبون
And [mention] the Day when We will resurrect from every nation a witness. Then it will not be permitted to the disbelievers [to apologize or make excuses], nor will they be asked to appease [ Allah ].
Aur jiss din hum her ummat mein say gawah khara keren gay phir kafiron ko na ijazat di jaye gi aur na unn say toba kerney ko kaha jayega.
اور اس دن کو یاد رکھو جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے ۔ ( ٣٥ ) پھر جن لوگوں نے کفر اپنایا تھا انہیں ( عذر پیش کرنے کی ) اجازت نہیں دی جائے گی ، اور نہ ان سے یہ فرمائش کی جائے گی کہ وہ توبہ کریں ۔ ( ٣٦ )
اور جس دن ( ف۱۹۰ ) ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ ( ف۱۹۱ ) پھر کافروں کو نہ اجازت ہو ( ف۱۹۲ ) نہ وہ منائے جائیں ، ( ف۱۹۳ )
﴿انہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اس روز کیا بنے گی﴾ جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ 80 کھڑا کریں گے ، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا 81 نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا ۔ 82
اور جس دن ہم ہر اُمت سے ( اس کے رسول کو اس کے اعمال پر ) گواہ بنا کر اٹھائیں گے پھر کافر لوگوں کو ( کوئی عذر پیش کرنے کی ) اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ( اس وقت ) ان سے توبہ و رجوع کا مطالبہ کیا جائے گا
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :80 یعنی اس امت کا نبی ، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس امت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو ، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو ، اور روز قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو ۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق ان لوگوں کو پہنچا دیا تھا ، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا ، بلکہ جانتے بوجھتے کیا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :81 یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :82 یعنی اس وقت ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو ۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا ، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا ۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت ۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثار موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اس وقت کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔
ہر امت کا گواہ اس کا نبی قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس دن ہر امت پر اس کا نبی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے ۔ سورۃ والمرسلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ اس دن نہ وہ بولیں گے ، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی ۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہو گی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لئے جائیں گے ۔ جہنم آ موجود ہو گی جو ستر ہزار لگاموں والی ہو گی ۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ اس میں سے ایک گردن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گر پڑیں گے ۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے باآواز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سرکش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چنانچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان باری ہے آیت ( اذا رایتھم ) الخ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور و غل ، کڑکنا ، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے ۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہو سکتا ہے؟ اور آیت میں ہے ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53؀ۧ ) 18- الكهف:53 ) گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( لو یعلم الذین کفروا ) کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کر سکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الہٰی انہیں ہکا بکا کر دیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہو گی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی ۔ اس وقت ان کے معبودان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیازیں کرتے رہے ان سے بالکل بےنیاز ہو جائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقا کام نہ آئیں گے ۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جھوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پرستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بےخبر ہوں اور حشر کے دن ان کے دشمن ہو جانے والے ہوں اور ان کی عبادت کا انکار کر جانے والے ہوں ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اپنا حمایتی اور باعث عزت جان کر جنہیں یہ پکارتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ آیت ( ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 25؀ڎ ) 29- العنكبوت:25 ) یعنی قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ انہیں قیامت کے دن حکم ہو گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو الخ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں ۔ اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہو جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀ ) 19-مريم:38 ) یعنی جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے ، اس دن خوب ہی سننے والے ، دیکھنے والے ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا ، الخ ۔ اور آیت میں ہے کہ سب چہرے اس دن اللہ حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے ، تابع اور مطیع ہوں گے ، زیر فرمان ہوں گے ۔ ان کے سارے بہتان و افترا جاتے رہیں گے ۔ ساری چالاکیاں ختم ہو جائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہو گا ۔ جنہوں نے کفر کیا ، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے دراصل وہ خود ہی ہلاکت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بےوقوف تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے ، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں ۔ ابو یعلی میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہر یلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہو تے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہو گا ۔