Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقٰتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ‌ؕ فَاِنِ انتَهَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿193﴾
ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالٰی کا دین غالب نہ آجائے اگر یہ رک جائیں ( تو تم بھی رک جاؤ ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے ۔
و قتلوهم حتى لا تكون فتنة و يكون الدين لله فان انتهوا فلا عدوان الا على الظلمين
Fight them until there is no [more] fitnah and [until] worship is [acknowledged to be] for Allah . But if they cease, then there is to be no aggression except against the oppressors.
Inn say laro jabtak kay fitna na mitt jaye aur Allah Taalaa ka deen ghalib na aajaye agar yeh ruk jayen ( to tum bhi ruk jao ) ziyadti to sirf zalimon per hi hai.
اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے ( ١٢٣ ) پھر اگر وہ باز آجائیں تو ( سمجھ لو کہ ) تشدد سوائے ظالموں کے کسی پر نہیں ہونا چاہئے ۔
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں ( ف۳۵۸ ) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر ،
تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے ۔ 204 پھر اگر وہ باز آجائیں ، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔ 205
اور ان سے جنگ کرتے رہو حتٰی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین ( یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملًا ) اﷲ ہی کے تابع ہو جائے ، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :204 یہاں فتنہ کا لفظ اوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ” فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو ، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو ۔ پھر جب ہم لفظ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی” اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالا تر مان کر اس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے ۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت ، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو ، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے ، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو ، جس میں بندے صرف قانون الہٰی کے مطیع بن کر رہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :205 باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں ، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے ۔ کافر ، مشرک ، دہریے ، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے ، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے ۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں ۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے ۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اور حسب امکان ، تبلیغ اور شمشیر ، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا ، جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں ، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظام باطل کی جگہ نظام حق قائم ہو جائے ، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا ، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے ، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو ، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنین صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں ۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو ان کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایان شان نہ تھا ۔ چنانچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے ععقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا ۔