Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلشَّهۡرُ الۡحَـرَامُ بِالشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ وَالۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ‌ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿194﴾
حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔
الشهر الحرام بالشهر الحرام و الحرمت قصاص فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم و اتقوا الله و اعلموا ان الله مع المتقين
[Fighting in] the sacred month is for [aggression committed in] the sacred month, and for [all] violations is legal retribution. So whoever has assaulted you, then assault him in the same way that he has assaulted you. And fear Allah and know that Allah is with those who fear Him.
Hurmat walay maheeney hurmat walay maheenon kay badlay hain aur hurmaten adlay badlay ki hain jo tum per ziyadti keray tum bhi ussi tarah ussi ki misil ziyadti kero jo tum per ki hai aur Allah Taalaa say dartay raha kero aur jaan rakho kay Allah Taalaa perhezgaron kay sath hai.
حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے ، اور حرمتوں پر بھی بدلے کے احکام جاری ہوتے ہیں ( ١٢٤ ) چنانچہ اگر کوئی شخص تم پر کوئی زیادہ کرے تو تم بھی ویسی ہی زیادتی اس پر کرو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو اس کا خوف دل میں رکھتے ہیں
ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے ( ف۳۵۹ ) جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے ،
ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا ۔ 206 لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے ، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھیں لوگوں کے ساتھ ہے ، جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔
حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور ( دیگر ) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں ، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :206 اہل عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا ، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں ۔ اس بنا پر ان مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا ، یعنی حرمت والے مہینے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں ، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں ، تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں ۔ اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہل عرب نے جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خاطر نسی کا قاعدہ بنا رکھا تھا ، جس کی رو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے ، تو کسی حرام مہینے میں اس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پورا کر دیتے تھے ۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں ، تو اس صورت میں کیا کیا جائے ۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے ۔
بیعت رضوان ذوالقعدہ سن ٦ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا ۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ٨ ہجری کا واقعہ ہے ، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے ۔ پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو ، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو ، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت وشان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی ، لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے ۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے ۔