Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرۡيَةً كَانَتۡ اٰمِنَةً مُّطۡمَٮِٕنَّةً يَّاۡتِيۡهَا رِزۡقُهَا رَغَدًا مِّنۡ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الۡجُـوۡعِ وَالۡخَـوۡفِ بِمَا كَانُوۡا يَصۡنَعُوۡنَ‏ ﴿112﴾
اللہ تعالٰی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ۔ پھر اس نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالٰی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔
و ضرب الله مثلا قرية كانت امنة مطمىنة ياتيها رزقها رغدا من كل مكان فكفرت بانعم الله فاذاقها الله لباس الجوع و الخوف بما كانوا يصنعون
And Allah presents an example: a city which was safe and secure, its provision coming to it in abundance from every location, but it denied the favors of Allah . So Allah made it taste the envelopment of hunger and fear for what they had been doing.
Allah Taalaa uss basti ki misal biyan farmata hai jo pooray aman-o-itminan say thi uss ki rozi uss kay pass ba faraghat her jagah say chali aarahi thi. Phir uss ney Allah Taalaa ki nematon ka kufur kiya to Allah Taalaa ney ussay bhook aur darr ka maza chakhaya jo badla tha unn kay kartooton ka.
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا ، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی ، تو اللہ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اوڑھنا بن گیا ۔ ( ٤٨ )
اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی ( ف۲۵٦ ) ایک بستی ( ف۲۵۷ ) کہ امان و اطمینان سے تھی ( ف۲۵۸ ) ہر طرف سے اس کی روزی کثرت سے آتی تو وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی ( ف۲۵۹ ) تو اللہ نے اسے یہ سزا چکھائی کہ اسے بھوک اور ڈر کا پہناوا پہنایا ( ف۲٦۰ ) بدلہ ان کے کیے کا ،
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے ۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا ۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں ۔
اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو ( بڑے ) امن اور اطمینان سے ( آباد ) تھی اس کا رزق اس کے ( مکینوں کے ) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی ( والوں ) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے
اللہ کی عظیم نعمت بعثت نبوی ہے اس سے مراد اہل مکہ میں یہ امن و اطمینان میں تھے ۔ آس پاس لڑائیاں ہوتیں ، یہاں کوئی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتا جو یہاں آ جاتا ، امن میں سمجھا جاتا ۔ جیسے قرآن نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان کا حرم نہیں دے رکھا ؟ جہاں ہماری روزیاں قسم قسم کے پھولوں کی شکل میں ان کے پاس چاروں طرف سے کھینچی چلی آتی ہیں ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ عمدہ اور گزارے لائق روزی اس شہر کے لوگوں کے پاس ہر طرف سے آ رہی تھی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر رہے جن میں سب سے اعلیٰ نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تھی جیسے ارشاد باری ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ 28؀ۙ ) 14- ابراھیم:28 ) کیا تو نے انہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف پہنچا دیا جو جہنم ہے جہاں یہ داخل ہوں گے اور جو بری قرار گاہ ہے ۔ ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں دوزحمتوں سے بدل دی گئیں ۔ امن خوف سے ، اطمینان بھوک اور گھبراہٹ سے ، انہوں نے اللہ کے رسول کی نہ مانی ۔ آپ کے خلاف کمر کس لی تو آپ نے ان کے لئے سات قحط سالیوں کی بد دعا دی ۔ جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھیں ۔ اس قحط سالی میں انہوں نے اونٹ کے خون میں لتھڑے ہوئے بال تک کھائے ۔ امن کے بعد خوف آیا ۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر سے خوف زدہ رہنے لگے ۔ آپ کی دن دگنی ترقی اور آپ کے لشکروں کی کثرت کا سنتے اور سھمے جاتے تھے یہاں تک کہ بالآخر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شہر مکہ پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر کے وہاں قبضہ کر لیا ۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے رہے تھے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ان میں خود ان میں سے ہی بھیجا تھا جس احسان کا بیان آیت ( لقد من اللہ ) الخ میں فرمایا ہے اور اسی کا بیان آیت ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ڂ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ٽ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا 10 ۝ۙ ) 65- الطلاق:10 ) میں ہے اور اسی معنی کی آیت ( کما ارسلنا فیکم ) میں ہے تکفرون تک اس لطیفے کو بھی نہ بھولئے کہ جیسے کفر کی وجہ سے امن کے بعد خوف آیا اور فراخی کے بعد بھوک آئی ایمان کی وجہ سے خوف کے بعد امن ملا اور بھوک کے بعد حکومت ، سرداری امارت اور امامت ملی ۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ ۔ سلیم بن نمیر کہتے ہیں ہم حضرت حفصہ زوجہ محترمہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج سے لوٹتے ہوئے آ رہے تھے اس وقت مدینہ شریف میں خلیفتہ المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرے ہوئے تھے ۔ مائی صاحبہ اکثر راہ چلتوں سے ان کی بابت دریافت فرمایا کرتی تھیں ۔ دو سواروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر آدمی بھیجا کہ ان سے خلیفتہ الرسول کا حال پوچھو ۔ انہوں نے خبر دی کہ افسوس آپ شہید کر دیئے گئے ۔ اسی وقت آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہی وہ شہید ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( وضرب اللہ ) الخ عبید اللہ بن مغیرہ کے استاد کا بھی یہی قول ہے ۔