Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَيَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالۡخَيۡرِ‌ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا‏ ﴿11﴾
اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح انسان ہے ہی بڑا جلد باز ۔
و يدع الانسان بالشر دعاءه بالخير و كان الانسان عجولا
And man supplicates for evil as he supplicates for good, and man is ever hasty.
Aur insan buraee ki duayen mangney lagta hai bilkul iss ki apni bhalaee ki dua ki tarah insan hai hi bara jald baaz.
اور انسان برائی اس طرح مانگتا ہے جیسے اسے بھلائی مانگنی چاہیے ۔ ( ٦ ) اور انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے ۔
اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے ( ف۲۹ ) جیسے بھلائی مانگتا ہے ( ف۳۰ ) اور آدمی بڑا جلد باز ہے ( ف۳۱ )
انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے ۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے ۔ 12
اور انسان ( کبھی تنگ دل اور پریشان ہو کر ) برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے جس طرح ( اپنے لئے ) بھلائی کی دعا مانگتا ہے ، اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :12 یہ جواب ہے کفار مکہ کی ان احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ بس آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو ۔ اوپر کے بیان کے بعد معا یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟ اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آکر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے ، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جو آگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے ۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے ۔ ، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بروقت ضرورت محسوس ہوتی ہے ، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اس وقت اس کی دعا قبول کرلی جاتی تو وہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی ۔
بد دعا اور انسان یعنی انسان کبھی کبھی گیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بردباری اور لعنت کی ۔ لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔ حدیث میں بھی ہے کہ اپنی جان و مال کے لئے دعا نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے ۔ اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے ۔ یہ ہے ہی جلد باز ۔ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچتی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آ رہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا الحمد للہ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک ربک یا ادم اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آ جائے ۔