Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۤءِ وَهٰٓؤُلَاۤءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّكَ‌ ؕ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحۡظُوۡرًا‏ ﴿20﴾
ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے ۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے ۔
كلا نمد هؤلاء و هؤلاء من عطاء ربك و ما كان عطاء ربك محظورا
To each [category] We extend - to these and to those - from the gift of your Lord. And never has the gift of your Lord been restricted.
Her aik ko hum ba-hum phonchaye jatay hain enhen bhi aur unhen bhi teray perwerdigar kay inamaat mein say. Teray perwerdigar ki bakhsish ruki hui nahi hai.
۔ ( اے پیغمبر ) جہاں تک ( دنیا میں ) تمہارے رب کی عطا کا تعلق ہے ہم ان کو بھی اس سے نوازتے ہیں ، اور ان کو بھی ( ١٠ ) اور ( دنیا میں ) تمہارے رب کی عطا کسی کے لیے بند نہیں ہے ۔
ہم سب کو مدد دیتے ہیں ان کو بھی ( ف۵۳ ) اور ان کو بھی ، تمہارے رب کی عطا سے ( ف۵۵ ) اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں ، ( ف۵٦ )
ان کو بھی اور ان کو بھی ، دونوں فریقوں کو ہم ﴿دنیا میں﴾ سامان زیست دیے جارہے ہیں ، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے ، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ 22
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان ( طالبانِ دنیا ) کی بھی اور ان ( طالبانِ آخرت ) کی بھی ( اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ ) آپ کے رب کی عطا سے ہے ، اور آپ کے رب کی عطا ( کسی کے لئے ) ممنوع اور بند نہیں ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :22 یعنی دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلبگاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے ، کسی اور کا نہیں ہے ۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخرت کے طلبگاروں کو رزق سے محروم کر دیں ، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں ۔
حق دار کو حق دیا جاتا ہے یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں ، یہ تیرے رب کی عطا ہے ، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے ۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا ، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ڈال نہیں سکتا ۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں ، نہ کسی کے روکے رکیں ، نہ کسی کے ہٹائے ہیٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں ۔ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں ، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں ، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی ۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے ، کوئی بوڑھا بڑا ہو کر ، کوئی اس کے درمیان ۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں ، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہو گا ۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں ۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو ۔ پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ، طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔