Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ وَمَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِـوَلِيِّهٖ سُلۡطٰنًا فَلَا يُسۡرِفْ فِّى الۡقَتۡلِ‌ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنۡصُوۡرًا‏ ﴿33﴾
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے ۔
و لا تقتلوا النفس التي حرم الله الا بالحق و من قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطنا فلا يسرف في القتل انه كان منصورا
And do not kill the soul which Allah has forbidden, except by right. And whoever is killed unjustly - We have given his heir authority, but let him not exceed limits in [the matter of] taking life. Indeed, he has been supported [by the law].
Aur kissi jaan ko jiss ka maarna Allah ney haram ker diya hai hergiz na haq qatal na kerna aur jo shaks mazloom honey ki soorat mein maar dala jaye hum ney uss kay waris ko taqat dey rakhi hai pus ussay chahiye kay maar dalney mein ziyadti na keray be-shak woh madad kiya gaya hai.
اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے ، اسے قتل نہ کرو ، الا یہ کہ تمہیں ( شرعا ) اس کا حق پہنچتا ہو ۔ ( ١٧ ) اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجا ۓ تو ہم نے اس کے ولی کو ( قصاص کا ) اختیار دیا ہے ۔ چنانچہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے ۔ ( ١٨ ) یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے ۔
اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو ، اور جو ناحق نہ مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ( ف۷۷ ) تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ( ف۷۸ ) ضرور اس کی مدد ہونی ہے ( ف۷۹ )
﴿۹﴾ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے33 مگر حق کے ساتھ ۔ 34 اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے ، 35 پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے ، 36 اس کی مدد کی جائے گی37 ۔
اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے ( قتل کرنا ) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ ( اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے ) حق ہو ، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے ( قصاص کا ) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی ( قصاص کے طور پر بدلہ کے ) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے ، بیشک وہ ( اﷲ کی طرف سے ) مدد یافتہ ہے ( سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی )
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :33 قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے ، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے ۔ اس لیے کہ نفس ، جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے ، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے ۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتل انسان ہے ، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے ۔ آدمی کو بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک ، اور اپنی اس ملکیت کو باختیار خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے ۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے ، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار ، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں ۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالی جس طرح بھی ہمارا امتحان لے ، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے ، خواہ حالات امتحان اچھے ہوں یا برے ۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصدا ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے ، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرم عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے ۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :34 بعد میں اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ ۔ تیسرے اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا ۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا ۔ پانچویں ارتداد کی سزا ۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :35 اصل الفاظ ہیں” اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے“ ۔ سلطان سے مراد یہاں ” حجت “ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں ، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :36 قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں ۔ مثلا جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا ، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا ، یا مار دینے کے بعد اس کی نعش پر غصہ نکالنا ، یا خوں بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :37 چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کریگا ۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظام عدالت کا کام ہے ۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصول انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے ۔
نا حق قتل بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں ۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو ۔ سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کی قتل سے زیادہ آسان ہے ۔ اگر کوئی شخص نا حق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے ۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اموی تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کررہے تھے ۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تا وقتیکہ آپ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا ۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے حکمران بن گئے ۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے ، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، اس وقت میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کرلیں ، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ۔ ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی ۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہو جائیں گے ، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ، جو مظلوم مار ڈالا جائے ، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں ۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہئے الخ ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پا لی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے ۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے ۔ کان ، ناک ، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے ۔ ولی مقتول شریعت ، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے ۔