Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤٮِٕكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔوۡلًا‏ ﴿36﴾
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔
و لا تقف ما ليس لك به علم ان السمع و البصر و الفؤاد كل اولىك كان عنه مسولا
And do not pursue that of which you have no knowledge. Indeed, the hearing, the sight and the heart - about all those [one] will be questioned.
Jiss baat ki tujhay khabar hi na ho uss kay peechay mat parr. Kiyon kaan aur aankh aur dil inn mein say her aik say pooch gooch ki janey wali hai.
اور جس بات کا تمہیں یقین نہ ہو ، ( اسے سچ سمجھ کر ) اس کے پیچھے مت پڑو ۔ ( ٢٠ ) یقین رکھو کہ کان ، آنکھ اور دل سب کے بارے میں ( تم سے ) سوال ہوگا ۔ ( ٢١ )
اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ( ف۷۳ ) بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ( ف۸٤ )
﴿١۳﴾ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ، یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے42 ۔
اور ( اے انسان! ) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے ( صحیح ) علم نہیں ، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :42 اس دفعہ کا منشاء یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ”علم“ کی پیروی کریں ۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاء کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ، قانون میں ، سیاست اور انتظام ملکی میں ، علوم و فنون اور نظام تعلیم میں ، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں ۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے ۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں ۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو ۔
بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، نہ بےسنے سننا بیان کرو ، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ 12؀ ) 49- الحجرات:12 ) ، کہ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ حدیث میں ہے گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑ لے اور صحیح حدیث میں ہے جو شخص ایسا خواب از خود گھڑ لے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا ۔ قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے باز پرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں تلک کی جگہ اولئک کا استعمال ہے ، عرب میں استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی ۔