Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا‌ ۚ اِنَّكَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَلَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا‏ ﴿37﴾
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ۔
و لا تمش في الارض مرحا انك لن تخرق الارض و لن تبلغ الجبال طولا
And do not walk upon the earth exultantly. Indeed, you will never tear the earth [apart], and you will never reach the mountains in height.
Aur zamin mein akar ker na chal kay na to tu zamin ko phaar sakta hai aur na lambai mein paharon ko phonch sakta hai.
اور زمین پر اکڑ کر مت چلو ۔ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو ۔ ( ٢٢ )
اور زمین میں اتراتا نہ چل ( ف۸۵ ) بیشک ہرگز زمین نہ چیر ڈالے گا ، اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا ( ف۸٦ )
﴿١٤﴾ زمین میں اکڑ کر نہ چلو ، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو ، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو ۔ 43
اور زمین میں اکڑ کر مت چل ، بیشک تو زمین کو ( اپنی رعونت کے زور سے ) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ( تو جو کچھ ہے وہی رہے گا )
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :43 مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو ۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے ۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں ، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ حتی کہ عین حالت جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی ۔ ان کی نشست و برخاست ، چال ڈھال ، لباس ، مکان ، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع ، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی ، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور بتختُر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے ۔
تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے پھر اسے نیچا دکھانے کے لئے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑی کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ امام ابو بکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھے ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قبا بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڑ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، مستوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت ( وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ ) 17- الإسراء:37 ) ۔ عابد بختری رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لئے کہ انسان ۔ ( اصل عربی میں کچھ عبارت غائب ہے ) اس کا ہاتھ اس کے باقی جسم سے ( ابن ابی الدنیا ) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ سیئہ کی دوسری قرأت سیئتہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور سیئہ کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت ( وقضی ربک ) سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔