Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
قُلْ لَّوۡ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا يَقُوۡلُوۡنَ اِذًا لَّابۡتَغَوۡا اِلٰى ذِى الۡعَرۡشِ سَبِيۡلًا‏ ﴿42﴾
کہہ دیجئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وہ اب تک مالک عرش کی جانب راہ ڈھونڈ نکالتے ۔
قل لو كان معه الهة كما يقولون اذا لابتغوا الى ذي العرش سبيلا
Say, [O Muhammad], "If there had been with Him [other] gods, as they say, then they [each] would have sought to the Owner of the Throne a way."
Keh dijiye! Kay Allah kay siwa aur mabood bhi hotay jaisay kay yeh log kehtay hain to zaroor woh abb tak malik-e-arsh ki janib raah dhoond nikaltay.
کہہ دو کہ : اگر اللہ کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ عرش والے ( حقیقی خدا ) پر چڑھائی کرنے کے لیے کوئی راستہ پیدا کرلیتے ۔ ( ٢٤ )
تم فرماؤ اگر اس کے ساتھ اور خدا ہوتے جیسا یہ بکتے ہیں جب تو وہ عرش کے مالک کی طرف کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے ( ف۹۳ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے ۔ 47
فرما دیجئے: اگر اس کے ساتھ کچھ اور بھی معبود ہوتے جیسا کہ وہ ( کفار و مشرکین ) کہتے ہیں تو وہ ( مل کر ) مالکِ عرش تک پہنچنے ( یعنی اس کے نظامِ اقتدار میں دخل اندازی کرنے ) کا کوئی راستہ ضرور تلاش کرلیتے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :47 یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے ۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں ۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو ، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں ۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ ، ہر معاملے میں ، ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی ، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے ۔ ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے ۔ رہی دوسری صورت ، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا ۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا ، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا ، اور فورا ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کر دیتا ۔ جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لیے کام نہ کریں ، اس کے متعلق صرف ایک انتہاء درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے ۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے ۔
لوگو عقل کے ناخن لو جو مشرک اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الہٰی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قرب الہٰی حاصل کر سکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قرب الہٰی دلوا دیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کر دیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت ، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے ۔ اللہ کو یہ واسطے سخت نا پسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے ۔ اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے ، وہ احمد اور صمد ہے ، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے ، اس کی جنس کا کوئی نہیں ۔