Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
رَبُّكُمۡ اَعۡلَمُ بِكُمۡ‌ؕ اِنۡ يَّشَاۡ يَرۡحَمۡكُمۡ اَوۡ اِنۡ يَّشَاۡ يُعَذِّبۡكُمۡ ‌ؕ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ وَكِيۡلًا‏ ﴿54﴾
تمہارا رب تم سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ جاننے والا ہے ، وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کر دے یا اگر وہ چاہے تمہیں عذاب دے ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں بھیجا ۔
ربكم اعلم بكم ان يشا يرحمكم او ان يشا يعذبكم و ما ارسلنك عليهم وكيلا
Your Lord is most knowing of you. If He wills, He will have mercy upon you; or if He wills, He will punish you. And We have not sent you, [O Muhammad], over them as a manager.
Tumhara rab tum say ba-nisbat tumharay boht ziyada jannay wala hai woh agar chahaye to tum per reham ker dey ya agar woh chahaye tumhen azab dey. Hum ney aap ko inn ka zaimay daar thehra ker nahi bheja.
تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم پر رحم فرما دے ، اور چاہے تو تمہیں عذاب دیدے ، اور ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہیں ان کی باتوں کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔
تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے ، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے ( ف۱۱۲ ) چاہے تو تمہیں عذاب کرے ، اور ہم نے تم کو ان پر کڑوڑا ( حاکمِ اعلیٰ ) بناکر نہ بھیجا ( ف۱۱۳ )
تمہارا رب تمہارےحال سے زیادہ واقف ہے ، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے ۔ 60 اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔ 61
تمہارا رب تمہارے حال سے بہتر واقف ہے ، اگر چاہے تم پر رحم فرما دے یا اگر چاہے تم پر عذاب کرے ، اور ہم نے آپ کو ان پر ( ان کے امور کا ) ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :60 یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے ۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے ۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے ۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے ۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق ۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا ۔ غالبا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ، یا تم کو خدا عذاب دے گا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :61 یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے ۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کہ حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی ۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے ۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو ۔
افضل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے ، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے ۔ اسی طرح جسے چاہے بد اعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے ۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے ، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے ، ایک کو ایک پر فضیلت ہے ، نبیوں میں بھی درجے ہیں ، کوئی کلیم اللہ ہے ، کوئی بلند درجہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو ، اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار ۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ احزاب کی آیت میں ہے یعنی محمد ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین ۔ سورہ شوریٰ کی آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ 13؀ ) 42- الشورى:13 ) میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں ۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے ، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں واللہ الموفق ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی ۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے ۔