Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَمَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ كَذَّبَ بِهَا الۡاَوَّلُوۡنَ‌ؕ وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً فَظَلَمُوۡا بِهَا‌ؕ وَمَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّا تَخۡوِيۡفًا‏ ﴿59﴾
ہمیں نشانات ( معجزات ) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں ۔
و ما منعنا ان نرسل بالايت الا ان كذب بها الاولون و اتينا ثمود الناقة مبصرة فظلموا بها و ما نرسل بالايت الا تخويفا
And nothing has prevented Us from sending signs except that the former peoples denied them. And We gave Thamud the she-camel as a visible sign, but they wronged her. And We send not the signs except as a warning.
Humen nishanaat ( mojzaat ) kay nazil kerney say rok sirf issi ki hai kay aglay log enhen jhutla chuken hain hum ney samoodiyon ko bator baseerat kay oontni di lekin unhon ney uss per zulm kiya hum to logon ko dhamkaney kay liye hi nishaniyan bhejtay hain.
اور ہم کونشانیاں ( یعنی کفار کے مانگے ہوئے معجزات ) بھیجنے سے کسی اور چیز نے نہیں ، بلکہ اس بات نے روکا ہے کہ پچھلے لوگ ایسی نشانیوں کو جھٹلا چکے ہیں ۔ ( ٣١ ) اور ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی دی تھی جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی ، مگر انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ۔ اور ہم نشانیاں ڈرانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں ۔
اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انھیں اگلوں نے جھٹلایا ( ف۱۲۳ ) اور ہم نے ثمود کو ( ف۱۲٤ ) ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو ( ف۱۲۵ ) تو انہوں نے اس پر ظلم کیا ( ف۱۲٦ ) اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو ( ف۱۲۷ )
اور ہم کو نشانیاں67 بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں ۔ ﴿چنانچہ دیکھ لو﴾ ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا ۔ 68 ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں ۔ 69
اور ہم کو ( اب بھی ان کے مطالبہ پر ) نشانیاں بھیجنے سے ( کسی چیز نے ) منع نہیں کیا سوائے اس کے کہ ان ہی ( نشانیوں ) کو پہلے لوگوں نے جھٹلا دیا تھا ( سو اس کے بعد وہ فوراً تباہ و برباد کر دیئے گئے اور کوئی مہلت باقی نہ رہی ، اے حبیب! ہم آپ کی بِعثت کے بعد آپ کی قوم سے یہ معاملہ نہیں کرنا چاہتے ) ، اور ہم نے قومِ ثمود کو ( صالح علیہ السلام کی ) اونٹنی ( کی ) کھلی نشانی دی تھی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا ، اور ہم نشانیاں نہیں بھیجا کرتے مگر ( عذاب کی آمد سے قبل آخری بار ) خوفزدہ کرنے کے لئے ( پھر جب اس نشانی کا انکار ہو جاتا ہے تو اسی وقت تباہ کن عذاب بھیج دیا جاتا ہے )
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :67 یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں ، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :68 مدعا یہ ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں ، تو پھر لا محالہ ان پر نزول عذاب واجب ہو جاتا ہے ، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ پچھلی تا ریخ اس بات کی شاہد ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی ان کو جھٹلایا اور پھر تباہ کر دی گئیں ۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے رہا ہے ۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :69 یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے ۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبردار ہو جائیں ، انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی کی پشت پر قادر مطلق کی بے پناہ طاقت ہے ، اور وہ جان لیں کہ اس کی نافرمانی کا انجام کیا ہو سکتا ہے ۔
عجیب و غریب مانگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی ، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ، وغیرہ ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیئجے ، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی ، فی الفور عذاب آ جائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں ۔ الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے دعا مانگی ، جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں ۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی ۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ آیت ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26- الشعراء:214 ) جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ قیش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں ۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی ، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا ، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں ۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں ۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الہٰی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا ۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور آیت ( وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى 31 ؀ۧ ) 13- الرعد:31 ) ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے ، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے ۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے کہ میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو ۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں اسے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، رسول کو جھٹلاتے رہے ، جس پر انہیں تین دن کی مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے ۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی ۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا ، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کر دیا ، جس کی پاداش میں سب مار ڈالے گئے اور الله زبردست کی پکڑ میں آ گئے ، آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کرلیں ۔ مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالى چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو ، تمہیں فورا اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے ، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں دونگا ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے ، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو ۔ اے امت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں ۔ اے امت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں ، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے ۔