Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاِذۡ قُلۡنَا لَـكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ‌ ؕ وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ فِى الۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَنُخَوِّفُهُمۡۙ فَمَا يَزِيۡدُهُمۡ اِلَّا طُغۡيَانًا كَبِيۡرًا‏ ﴿60﴾
اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کے آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے ۔ جو رویا ( عینی روئیت ) ہم نے آپ کو دکھا دی تھی وہ لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وہ درخت بھی جس سے قرآن میں اظہار نفرت کیا گیا ہے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے ۔
و اذ قلنا لك ان ربك احاط بالناس و ما جعلنا الرءيا التي ارينك الا فتنة للناس و الشجرة الملعونة في القران و نخوفهم فما يزيدهم الا طغيانا كبيرا
And [remember, O Muhammad], when We told you, "Indeed, your Lord has encompassed the people." And We did not make the sight which We showed you except as a trial for the people, as was the accursed tree [mentioned] in the Qur'an. And We threaten them, but it increases them not except in great transgression.
Aur yaad kero jabkay hum ney aap say farma diya kay aap kay rab ney logon ko gher liya hai. Jo roya ( any royat ) hum ney aap ko dikhaee thi woh logon kay liye saaf aazmaeesh hi thi aur issi tarah woh darakht bhi jiss say quran mein izhar-e-nafrat kiya gaya hai. Hum unehn dara rahey hain lekin yeh unhen aur bari sirkashi mein barha raha hai.
اور ( اے پیغمبر ) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمہارا پروردگار ( اپنے علم سے ) تمام لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ ( ٣٢ ) اور ہم نے جو نظارہ تمہیں دکھایا ہے ، اس کو ہم نے ( کافر ) لوگوں کے لیے ایک فتنہ بنا دیا ۔ ( ٣٣ ) نیز اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے ۔ اور ہم تو ان کو ڈراتے رہتے ہیں ، لیکن اس سے ان کی سخت سرکشی ہی میں اضافہ ہورہا ہے ۔
اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں ( ف۱۲۸ ) اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا ( ف۱۲۹ ) جو تمہیں دکھایا تھا ( ف۱۳۰ ) مگر لوگوں کی آزمائش کو ( ف۱۳۱ ) اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے ( ف۱۳۲ ) اور ہم انھیں ڈراتے ہیں ( ف۱۳۳ ) تو انھیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی ،
یاد کرو اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے ۔ 70 اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے71 ، اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے 72 ، ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ۔ 73 ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں ، مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے ۔ ؏ ٦
اور ( یاد کیجئے ) جب ہم نے آپ سے فرمایا کہ بیشک آپ کے رب نے ( سب ) لوگوں کو ( اپنے علم و قدرت کے ) احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور ہم نے تو ( شبِ معراج کے ) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے ( ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے ) اور اس درخت ( شجرۃ الزقوم ) کو بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ ( ڈرانا بھی ) ان میں کوئی اضافہ نہیں کرتا سوائے اور بڑی سرکشی کے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :70 یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی ، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی ، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں ، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے ، اور یہ کام جو تونے اپنے ہاتھ میں لیا ہے ، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا ۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبردار ہونا ہے ، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا ، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوت اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی ، اور یہ تیرا بال تک بھیگا نہ کر سکے ۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے ۔ یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے ، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوا ہے ۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا فِیْ تَکْذِیْبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآءِھِمْ مُّحِیطٌ ( مگر یہ کافر جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے ) ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :71 اشارہ ہے معراج کی طرف ۔ اس کے لیے یہاں لفظ ”رؤیا“ جو استعمال ہوا ہے یہ ”خواب“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیان کیا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا ۔ خواب ایک اسے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے ، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے ، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنھبے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :72 یعنی زقوم ، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہوگا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے ۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ اسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایا ہو ، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تا کہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اٹھائیں ۔ سورہ دخان ( آیات ٤۳ ۔ ٤٦ ) میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوذخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :73 یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے ، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو حقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آجائیں ، مگر ان لوگوں نے الٹا اس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبردار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخرکار تمہں زقوم کے نوالے کھلوا کر رہیں گی ، مگر انہوں نے اس پر ایک ٹھٹھا لگایا اور کہنے لگے ، ذرا اس شخص کو دیکھو ، ایک طرف کہتا ہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہوگی ، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اگیں گے!
مقصد معراج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول علیہ السلام کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں ، وہ سب پر غالب ہے ، سب اس کے ماتحت ہیں ، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا ۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے ۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا ، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا ۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے ۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا ۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہو چکی ہیں ۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہو گئے اور حق سے پھر گئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے ۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہو گئے ۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہو گئے ۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابو جہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کجھور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے ، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے ۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں ۔ جیسے ابن عباس مسروق ، ابو مالک ، حسن بصری وغیرہ ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ ( ابن جریر ) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے ۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں ۔ خود امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃالزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے ۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد ، تکبر ، ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں ۔