Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوۡكِ الشَّمۡسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ‌ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُوۡدًا‏ ﴿78﴾
نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے ۔
اقم الصلوة لدلوك الشمس الى غسق اليل و قران الفجر ان قران الفجر كان مشهودا
Establish prayer at the decline of the sun [from its meridian] until the darkness of the night and [also] the Qur'an of dawn. Indeed, the recitation of dawn is ever witnessed.
Namaz ko qaeem keren aftab kay dhalney say ley ker raat ki tareeki tak aur fajar ka quran parhna bhi yaqeenan fajar kay waqt ka quran parhna hazir kiya gaya hai.
۔ ( اے پیغمبر ) سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو ۔ ( ٤٣ ) اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو ۔ یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے ۔ ( ٤٤ )
نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک ( ف۱۷۰ ) اور صبح کا قرآن ( ف۱۷۱ ) بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ( ف۱۷۲ )
نماز قائم کرو 91 زوال آفتاب 92 سے لے کر رات کے اندھیرے93 تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو 94 کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے ۔ 95
آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک ( ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی ) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی ( لازم کر لیں ) ، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں ( فرشتوں کی ) حاضری ہوتی ہے ( اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے )
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :91 مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فورا ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالی نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامت صلوۃ سے حاصل ہوتی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :92 ”زوال آفتاب“ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے ۔ اگرچہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے ، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جاتا ہے ۔ حضرت عمر ، ابن عمر ، انس بن مالک ، ابو برزة الاسلمی رضی اللہ عنہم حسن بصری ۔ شعبی ، عطاء ۔ مجاہد رحمہم اللہ اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رحمہما اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے ۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دلوک شمس کی یہی تشریح منقول ہے ، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہں ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :93 غسق اللیل بعض کے نزدیک ” رات کا پوری طرح تاریک ہو جانا “ ہے ، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں ۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہوگا ، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشاء کے آخر وقت کی طرف ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :94 فجر کے لغوی معنی ہیں”پو پھٹنا“ ۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدئہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے ۔ فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے ۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے ، مثلا تسبیح ، حمد ، ذکر ، قیام ، رکوع ، سجود وغیرہ ۔ اسی طرح یہاں فجر کےوقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں ، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمنا یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے ۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :95 قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں ، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے ۔ اگر چہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں ، لیکن جب خاص طور پر نماز فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا ۔ اس آیت میں مجملا یہ بتایا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز ، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی ، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے ۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے ، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمت شب تک پڑھی جائیں ۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ چنانچہ ابو داؤد علیہ السلام اور ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی ۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا ، پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا ، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی ، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ۔ دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا ، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا ، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے پر ، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر ۔ پھر جبریل علیہ السلام نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یہی اوقات انبیاء علیہم السلام کے نماز پڑھنے کے ہیں ، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“ ۔ ( یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتائی گئی ہے ۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے ) ۔ قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں ۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا: اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۔ ط ( آیت ١١٤ ) ”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر ( یعنی فجر اور مغرب ) اور کچھ رات گزرنے پر ( یعنی عشاء ) “ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ( آیت ١۳۰ ) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے ( فجر ) اور غروب آفتاب سے پہلے ( عصر ) اور رات کے اوقات میں پھر تبیح کر ( عشاء ) اور دن کے سروں پر ( یعنی صبح ، ظہر اور مغرب ) پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا: فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ( آیات ١۷ ۔ ١۸ ) پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو ( مغرب ) اور صبح کرتے ہو ( فجر ) ۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں ۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں ( عصر ) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو ( ظہر ) نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات عبادت سے اجتناب کیا جائے ۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا ، یا بہت بڑا معبود رہا ہے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر ان کے اوقات عبادت رہے ہیں ، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے ، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو ۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار ۔ صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رک جاؤ ، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے ۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار ( رواہ مسلم ) ” غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ “ اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے ۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے لیے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے ۔ اس استعارے کی گرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہے کہ ” اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں “ ۔
اوقات صلوۃ کی نشاندہی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے دلوک سے مراد غرب ہے یا زوال ہے ۔ امام ابن جریر زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی ، کھانا کھا کر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، چلو یہی وقت دلوک شمس کا ہے ۔ پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا ۔ غسق سے ۔ مراد اندھیرا ہے جو کہتے ہیں کہ دلوک سے مراد غروبي ہے ، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشا کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان وقران الفجر میں ہے ۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال وافعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں ، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں ۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے والحمد للہ ۔ صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے تنہا شخص کی نماز پر جماعت جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ صبح کن نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں ۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو وقران الفجر الخ ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں ، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے ، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں ۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے ، فرشوں کا تو حکم ہے ہی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز ۔ تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو ، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے ۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے ۔ ہاں حسن بصری کا قول ہے کہ جو نماز عشا کے بعد ہو ۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو ۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لئے ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں ، تہجد کی نمازوں کے برخلاف صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی ۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں گھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی ۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لئے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں ۔ حضرت حدیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا ، آنکھیں کھل جائیں گے ، ننگے پاؤں ننگ بدن ہوں گے ، جیسے کہ پیدا کئے گے تھے ، سب کھڑے ہوں گے ، کوئی بھی بغیر اجازت الہٰی بات نہ کر سکے گا ، آواز آئے گی ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کہیں گے لبیک وسعدیک ۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے ۔ برائی تیری جانب سے نہیں ۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے ، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے ، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے ، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے ۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں تو برکتوں اور بلندیوں والا ہے اے رب البیت تو پاک ہے ۔ مقام محمود کا تعاف یہ مقام محمود جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے ۔ پس یہ مقام مقام شفاعت ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے ۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول سے کیا ہے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گی جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں ۔ سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہو گی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے ، آپ کا ایک جھنڈا ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کر دیں ۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لئے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آ رہی ہے ان شاء اللہ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی بابت حکم ہو چکا ہو گا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں ۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دئے جائیں گے ، سب سے پہلے آپ ہی جنت میں لے جانے کی پہلے سفارشی ہوں گے ۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام مومن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے ۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے اور آپ کی امت اور امتوں سے پہلے جائے گی ۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گے ۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی ۔ یہ صحیح ہے کہ بحکم الہٰی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے ، نبی بھی کریں گے ، مومن بھی کریں گے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہو گی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں ۔ کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے والحمد للہ ۔ اب مقام محمود کے بارے کی حدیثیں سنئے ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے ، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گی ۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورج بہت نزدیک ہو گا یہاں تک کہ پسینہ آدھے کانوں تک پہنچ جائے گا ، اسی حالت میں لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے ، وہ صاف انکار کر دیں گے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے آب یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں گے آپ مخلوق کی شفاعت کے لئے چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کا کنڈا تھام لیں ، پس اس وقت آپ کی تعریفیں کریں گے ۔ بخاری میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللہم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ ) الخ پڑھ لے اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوں گا میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا ۔ اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأت وں پر پڑھنے کا بیان ہے اس کے آخر میں ہے کہ میں نے کہا اے اللہ میری امت کو بخش ، الہٰی میری امت کو بخش ، تیری دعا میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے ، جس دن تمام مخلوق میری طرف رعبت کرے گی ، یہاں تک کہ اگر ابراہیم علیہ السلام بھی ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جمع ہوں گے پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کسی سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں اس جگہ سے آرام دے ، پس سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، آپ کے لئے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے ، حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں آپ کو اپنا گناہ یاد آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں ، فرمائیں گے تم حضرت نوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں ، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا ۔ پس اپنے پروردگار سے شرمائیں جائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ آپ کے پاس آئیں گے ، آپ فرمائیں کے ، میں اس قابل نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کر دیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے ۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں ۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں ، پس وہ میرے پاس آئیں گے میں کھڑا ہوؤں گا ۔ اپنے رب سے اجازت چاہوں گا جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ۔ جب تک اللہ کو منظور ہو گا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر فرمایا جائے گا ، اے محمد سر اٹھائیے ، کہئے ، سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے ، قبول کی جائے گی ، مانگئے دیا جائے گا ، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا ، میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، میں انہیں جنت میں پہچا آؤں گا ، پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا ۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا پھر فرمایا جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا ، بات کر ، سنی جائے گی ۔ سوال کر ، عطا فرمایا جائے گا ۔ سفارش کر ، قبول کی جائے ۔ چنانچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کر کے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا ۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ۔ فرماتے ہیں جہنم میں سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور ان کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت پل صراط سے گزر رہی ہو گی میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا جو میرے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں اور فرمائیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیا کی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے وہ سب آپ کے لئے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام امتوں کو جہاں بھی چاہے ، الگ الگ کر دے ، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں ، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے ۔ مومن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے ۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھیرو میں آتا ہوں پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول کو نہ ملی ہو پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے ، مانگئے ، ملے گا ، سفارش کیجئے ، قبول ہو گی ، پس مجھے اپنی امت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں میں بار بار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جاؤ مخلوق الہٰی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو ، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا ، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہیں گے ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں ، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا ، پس اے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو اس کی امید ہو اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے ناامید ہوں؟ مسند احمد میں ہے کہ ملیکہ کے دونوں لڑکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں ، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں ، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں ۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں درگور کر دی تھیں ، آپ نے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی ۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اچھی بات سنائیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں ، ایک منافق یہ سن کر کہنگ لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ایک انصاری جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا ، کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے ، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھے اس بارے میں کوئی طمع دی ۔ سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بےختنہ لایا جائے گا ۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے پھر میرا لباس لایا جائے گا میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوؤں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لگ کر حوض تک ان کے لئے کھول دیا جائے گا ، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لئے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں آپ نے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں ۔ اس نے کہا ، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا ۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہیئں ، انصاری نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے ۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی ۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں ۔ انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہو گا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ۔ ایک گھونٹ بھی جس نم اس میں سے پی لیا ، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہو گا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا ، پس روح القدس حضرت جبرائیل علیہ السلام کھڑے ہوں گے ، پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کھڑے ہوں گے آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہو گی یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ، میں اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوؤں گا ، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ حلہ پہنائے گا ، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا ، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی ، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی امت کو اور امتوں میں پہچان لوں گا ، کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ساری امتیں جو حضرت نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی امت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ نے فرمایا وضو کے اثر سے ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہو گا اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا ، وہی آپ کو دیا گیا آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا انہیں سنائے گا ۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی سورج بالکل نزدیک ہو جائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں ، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں ۔ چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے ، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے ۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا ، لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی ۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے ۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ وہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح علیہ السلام آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا ۔ آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے ، دیکھئے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے میں ہوا نہ اسے کے بعد کبھی ایسا غصے ہو گا ۔ میرے لئے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی مجھے تو آج اپنی پڑی ہے ، نفسا نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں کے ، آپ نبی اللہ ہیں ، آپ خلیل اللہ ہیں ، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا پھر آپ آپنے جھوٹ یاد کر کے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام ہماری شفاعت لے جائیے دیکھئے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گے آج تو میرا رب اس قدر نارض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہو گا ، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا ۔ نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کسی اور سے کہو تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ علیہ السلام آپ رسول اللہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کر دیا تھا چاہے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بےچین ہیں ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا ، نہ بعد میں ہو گا ، نفسی نفسی نفسی ، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے ۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ چنانچہ وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ رسول اللہ ہیں ، آپ خاتم الانبیاء ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئے ہیں ۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے دیکھئے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں ، پھر میں کھڑا ہوؤں گأ اور عرش تلے آ کر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے ۔ پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، مانگو ، تمہیں ملے گا ، شفاعت کرو ، منظور ہو گی ۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میری امت ، میرے رب میری امت ، اے اللہ میری امت ، پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، جاؤ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں ، جنت میں لے جاؤ انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ ور حمیر میں یا مکہ اور بصری میں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ مسلم شریف میں ہے قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی ، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شفاعت ہے ۔ مسند احمد میں ہے مقام محمود وہ مقام ہے ، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ۔ عبد الرزاق میں ہے کہ قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر شخص کے لئے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی سب سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا ۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔