Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَقُلْ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِىۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِىۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلْ لِّىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِيۡرًا‏ ﴿80﴾
اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے ۔
و قل رب ادخلني مدخل صدق و اخرجني مخرج صدق و اجعل لي من لدنك سلطنا نصيرا
And say, "My Lord, cause me to enter a sound entrance and to exit a sound exit and grant me from Yourself a supporting authority."
Aur dua kiya keren kay aey meray perwerdigar mujhay jahan ley jaa achi tarah ley jaa aur jahan say nikal achi tarah nikal aur meray liye apney pass say ghalba aur imdad muqarrar farma dey.
اور یہ دعا کرو کہ : یا رب ! مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما ، اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال ، اور مجھے خاص اپنے پاس سے ایسا اقتدار عطا فرما جس کے ساتھ ( تیری ) مدد ہو ۔ ( ٤٧ )
اور یوں عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا ( ف۱۷۵ ) اور مجھے اپنی طرف سے مددگار غلبہ دے ( ف۱۷٦ )
اور دعا کرو کہ پروردگار ، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال ، 99 اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے ۔ 100
اور آپ ( اپنے رب کے حضور یہ ) عرض کرتے رہیں: اے میرے رب! مجھے سچائی ( خوشنودی ) کے ساتھ داخل فرما ( جہاں بھی داخل فرمانا ہو ) اور مجھے سچائی ( و خوشنودی ) کے ساتھ باہر لے آ ( جہاں سے بھی لانا ہو ) اور مجھے اپنی جانب سے مددگار غلبہ و قوت عطا فرما دے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :99 اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا ۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے ، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :100 یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر ، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اس کی حماقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں ، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں ، اور تیرے قانون عدل کو جاری کر سکوں ۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ رحمہما اللہ نے کی ہے ، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ ، یعنی اللہ تعالی حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے ۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو ۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے ۔ اگر جہاد کے لے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا ؟
حکم ہجرت مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کرلیں پس اللہ کیا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ھے ۔ قتادہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مدینے میں داخل ہونا اور مکے سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو ۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا اتنا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں یہ غلب بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور اور کمزور کا شکار کر لیتا ۔ سلطنا نصیرا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لئے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آ چکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آ گیا ، کفر برباد و غارت اور بےنام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بےدست و پاثابت ہوا ، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور نابود اور بےوجود ہو گیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی آپ نے فورا حکم دیا کا ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔