Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَيَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ‌ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿85﴾
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ جواب دے دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔
و يسلونك عن الروح قل الروح من امر ربي و ما اوتيتم من العلم الا قليلا
And they ask you, [O Muhammad], about the soul. Say, "The soul is of the affair of my Lord. And mankind have not been given of knowledge except a little."
Aur yeh log aap say rooh ki babat sawal kertay hain aap jawab dey dijiye kay rooh meray rab kay hukum say hai aur tumhen boht hi kum ilm diya gaya hai.
اور ( اے پیغمبر ) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ : روح میرے پروردگار کے حکم سے ( بنی ) ہے ۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے ۔ ( ٤٩ )
اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں ہیں ، تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا ( ف۱۸۷ )
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے ۔ 103
اور یہ ( کفّار ) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں ، فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :103 عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے ، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے ، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے ۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟ ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد وحی یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم سے یہ لوگ روح ، یعنی ماخذ قرآن ، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شہبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے ۔ یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ( آیت ١۵ ) ۔ وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“ ۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ ( آیت ۵۲ ) ۔ اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی ۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ۔ سلف میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہ ، قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے ، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے ۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ رحمہما اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ۔
بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا ۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں ۔ کوئی کہنے لگا اچھا ، کسی نے کہا مت پوچھو ۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو ۔ جانے دو نہ پوچھو ۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو ۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ١٠٩؁ ) 18- الكهف:109 ) یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الہٰی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمین اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکے میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی ۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے ۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپنے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2- البقرة:97 ) نازل ہوئی یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے ۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے ۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں ۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے ۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی ۔ ( او کما قال ) بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم ۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا ۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے ۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے ۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں ۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے ۔