Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَٮِٕنۡ شِئۡنَا لَنَذۡهَبَنَّ بِالَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَـكَ بِهٖ عَلَيۡنَا وَكِيۡلًا ۙ‏ ﴿86﴾
اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سلب کرلیں پھر آپ کو اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے ۔
و لىن شنا لنذهبن بالذي اوحينا اليك ثم لا تجد لك به علينا وكيلا
And if We willed, We could surely do away with that which We revealed to you. Then you would not find for yourself concerning it an advocate against Us.
Aur agar hum chahayen to jo wahee aap ki taraf hum ney utari hai sab salb ker len phir aap ko iss kay liye humaray muqablay mein koi himayati mayassar na aa sakay.
اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی ہے ، وہ ساری واپس لے جائیں ، پھر تم اسے واپس لانے کے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار بھی نہ پاؤ ۔
اور اگر ہم چاہتے تو یہ وحی جو ہم نے تمہاری طرف کی اسے لے جاتے ( ف۱۸۸ ) پھر تم کوئی نہ پاتے کہ تمہارے لیے ہمارے حضور اس پر وکالت کرتا
اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے ، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے ۔
اور اگر ہم چاہیں تو اس ( کتاب ) کو جو ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے ( لوگوں کے دلوں اور تحریری نسخوں سے ) محو فرما دیں پھر آپ اپنے لئے اس ( وحی ) کے لے جانے پر ہماری بارگاہ میں کوئی وکالت کرنے والا بھی نہ پائیں گے
قرآن اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر نہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کر سکتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا ۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کر کے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے ۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بےمثل بےنظیر بےشریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے ۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم ۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں ۔