Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى تِسۡعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ‌ فَسۡـــَٔلۡ بَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ اِذۡ جَآءَهُمۡ فَقَالَ لَهٗ فِرۡعَوۡنُ اِنِّىۡ لَاَظُنُّكَ يٰمُوۡسٰى مَسۡحُوۡرًا‏ ﴿101﴾
ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے ، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسٰی! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے ۔
و لقد اتينا موسى تسع ايت بينت فسل بني اسراءيل اذ جاءهم فقال له فرعون اني لاظنك يموسى مسحورا
And We had certainly given Moses nine evident signs, so ask the Children of Israel [about] when he came to them and Pharaoh said to him, "Indeed I think, O Moses, that you are affected by magic."
Hum ney musa ko no moajzzay bilkul saaf saaf ata farmaye tu khud hi bani isaeel say pooch ley kay jab woh inn kay pass phonchay to firaon bola kay aey musa! Meray khayal mein to tujh per jadoo ker diya gaya hai.
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی کھلی نشانیاں دی تھیں ۔ ( ٥٣ ) اب بنو اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ ان لوگوں کے پاس گئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ : اے موسیٰ ! تمہارے بارے میں میرا تو خیال یہ ہے کہ کسی نے تم پر جادو کردیا ہے ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں ( ف۲۱۰ ) تو بنی اسرائیل سے پوچھو جب وہ ( ف۲۱۱ ) ان کے پاس آیا تو اس سے فرعون نے کہا ، اے موسیٰ! میرے خیال میں تو تم پر جادو ہوا ( ف۲۱۲ )
ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں ۔ 113 اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نہ کہ اے موسیٰ ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے ۔ 114
اور بیشک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو نو روشن نشانیاں دیں تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھیئے جب ( موسٰی علیہ السلام ) ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا: میں تو یہی خیال کرتا ہوں کہ اے موسٰی! تم سحر زدہ ہو ( تمہیں جادو کر دیا گیا ہے )
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :113 واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے پر جواب دیا گیا ہے ، اور تیسرا جواب ہے ۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کو ایسے ہی صریح معجزات ، ایک دو نہیں ، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے ، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا ؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا ؟ وہ نو نشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں ۔ یعنی عصاء ، جو اژدہا بن جاتا تھا ، یدِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تھا ، جادوگروں کے جادو کو برسرعام شکست دینا ، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا ، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان ، ٹڈی دل ، سرسریوں ، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :114 یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ۔ اسی سورت کی آیت ٤۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً ۔ ( تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جا رہے ہو ) ۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ زمانہ حال میں منکرین حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا ، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں ۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویان حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے ۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہ قرآن کی رو سے حضرت موسی علیہ السلام پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحرزدہ آدمی ہیں ، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۔ فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہ خِیْفَةً مُّوْسٰی ۔ یعنی جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسی علیہ السلام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں ، پس موسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈر سا گیا ۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟ دراصل اس طرح کے اعتراضات اٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کو مسحور کہتے تھے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعوی کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں ۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہو جانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے ، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگایا تھا ، نہ قرآن نے اس کی تردید کی ، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ منصب نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہو جائیں ، حتی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے ۔ مخالفین حق حضرت موسی علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگاتے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے ۔
پانچ معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی ۔ لکڑی ، ہاتھ ، قحط ، دریا ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں ۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا ۔ لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورہ اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ ، آپ کی لکڑی ، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیان جوئیں مینڈگ اور خون ہیں ۔ یہ قول زیادہ ظاہر ، بہت صاف ، بہتر اور قوی ہے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے ۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم وزیا دتی کر کے کفر انکار پر جم گئے ۔ اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے ۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آ جانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ برباد کر دی جائے گی ۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو ، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو ۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے ۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزں نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا ۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ علمت کی دوسری قرأت علمت تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ ) 27- النمل:14 ) یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، اور دم ( خون ) تھیں ۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتییں واقعی قابل انکار ہیں ، واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76؀ ) 17- الإسراء:76 ) میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت ( كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ 59؀ۭ ) 26- الشعراء:59 ) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔