Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
قُلِ ادۡعُوا اللّٰهَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ‌ ؕ اَ يًّا مَّا تَدۡعُوۡا فَلَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى ‌ۚ وَلَا تَجۡهَرۡ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتۡ بِهَا وَابۡتَغِ بَيۡنَ ذٰ لِكَ سَبِيۡلًا‏ ﴿110﴾
کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کر لے ۔
قل ادعوا الله او ادعوا الرحمن ايا ما تدعوا فله الاسماء الحسنى و لا تجهر بصلاتك و لا تخافت بها و ابتغ بين ذلك سبيلا
Say, "Call upon Allah or call upon the Most Merciful. Whichever [name] you call - to Him belong the best names." And do not recite [too] loudly in your prayer or [too] quietly but seek between that an [intermediate] way.
Keh dijiye kay Allah ko Allah keh ker pulkaro ya rehman keh ker jiss naam say bhi pukaro tamam achay naam ussi kay hain. Na to tu apni namaz boht buland aawaz say parh aur na bilkul posheeda balkay iss kay darmiyan ka raasta talash kerley.
کہہ دو کہ : چاہے تم اللہ کو پکارو ، یا رحمن کو پکارو ، جس نام سے بھی ( اللہ کو ) پکارو گے ( ایک ہی بات ہے ) کیونکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں ۔ ( ٥٦ ) اور تم اپنی نماز نہ بہت اونچی آواز سے پڑھو ، اور نہ بہت پست آواز سے ، بلکہ ان دونوں کے درمیان ( معتدل ) راستہ اختیار کرو ۔ ( ٥٧ )
تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو رحمان کہہ کر ، جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں ( ف۲۳۰ ) اور اپنی نماز نہ بہت آواز سے پڑھو نہ بالکل آہستہ اور ان دنوں کے بیچ میں راستہ چاہو ( ف۲۳۱ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے نام ہیں ۔ 123 اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو ۔ 124
فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو ، جس نام سے بھی پکارتے ہو ( سب ) اچھے نام اسی کے ہیں ، اور نہ اپنی نماز ( میں قرات ) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان ( معتدل ) راستہ اختیار فرمائیں
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :123 یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے اللہ کا نام تو ہم نے سنا تھا ، مگر یہ رحمان کا نام تم نے کہاں سے نکالا ؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالی کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :124 ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے تھے ۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں ، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں ۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا ۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا ۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے سے حالات سے دو چار ہونا پڑے ، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے ۔
رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں ۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو ۔ سورہ حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں ۔ ایک مشرک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو ۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو ، اللہ کو ، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو ۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں ۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا ۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا ۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ با آواز بلند قرأت پڑھا کر تے تھے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو عیاض ، حضرت مکحول ، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری ۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو ۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو ۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے ۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں ۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کا شریک نہیں ، وہ واحد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کی جنس کا کوئی اور ، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے ۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے ۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے ۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے ۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے ۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے ۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی واللہ اعلم ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا تھاچند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے ۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم ۔