Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَتَرَى الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ كَهۡفِهِمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَاِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُهُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمۡ فِىۡ فَجۡوَةٍ مِّنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ‌ ؕ مَنۡ يَّهۡدِ اللّٰهُ فَهُوَ الۡمُهۡتَدِ ‌ۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرۡشِدًا‏ ﴿17﴾
آپ دیکھیں گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کی کشادہ جگہ میں ہیں یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالٰی جس کی رہبری فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں ۔
و ترى الشمس اذا طلعت تزور عن كهفهم ذات اليمين و اذا غربت تقرضهم ذات الشمال و هم في فجوة منه ذلك من ايت الله من يهد الله فهو المهتد و من يضلل فلن تجد له وليا مرشدا
And [had you been present], you would see the sun when it rose, inclining away from their cave on the right, and when it set, passing away from them on the left, while they were [laying] within an open space thereof. That was from the signs of Allah . He whom Allah guides is the [rightly] guided, but he whom He leaves astray - never will you find for him a protecting guide.
Aap dekhen gay kay aftab ba-waqt tuloo unn kay ghaar say dayne janob ko jhuk jata hai aur ba-waqt-e-ghuroob unn kay bayen janib katra jata hai aur woh iss ghaar ki kushada jaga mein hain. Yeh Allah ki nishaniyon mein say hai. Allah Taalaa jiss ki raahbari farmaye woh raah-e-raast per hai aur jissay woh gumraah ker dey na mumkin hai kay aap uss ka koi kaar saaz aur rehnuma paa saken.
اور ( وہ غار ایسا تھا کہ ) تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تو وہ ان کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا ، اور جب غروب ہوتا تو ان سے بائیں طرف کترا کر چلا جاتا ، ( ٩ ) اور وہ اس غار کے ایک کشادہ حصے میں ( سوئے ہوئے ) تھے ۔ یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ ( ١٠ ) جسے اللہ ہدایت دیدے ، وہی ہدایت پاتا ہے ، اور جسے وہ گمراہ کردے اس کا تمہیں ہرگز کوئی مددگار نہیں مل سکتا جو اسے راستے پر لائے ۔
اور اے محبوب! تم سورج کو دیکھو گے کہ جب نکلتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف بچ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے ( ف۲۰ ) حالانکہ وہ اس غار کے کھلے میدان میں میں ہیں ( ف۲۱ ) یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جسے اللہ راہ دے تو وہی راہ پر ہے ، اور جسے گمراہ کرے تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے ،
تم انہیں غار میں دیکھتے 12 تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں ۔ 13 یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں پاسکتے ۔ ؏2
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کے کشادہ میدان میں ( لیٹے ) ہیں ، یہ ( سورج کا اپنے راستے کو بدل لینا ) اﷲ کی ( قدرت کی بڑی ) نشانیوں میں سے ہے ، جسے اﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے ، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد ( یعنی راہ دکھانے والا مددگار ) نہیں پائیں گے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :12 بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرارداد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :13 یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے ۔
غار اور سورج کی شعائیں یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس غار کا منہ شمال رخ ہے ۔ سورج کے طلوع کے وقت ان کے دائیں جانب دھوپ کی چھاؤں جھک جاتی ہے پس دوپہرے کے وقت وہاں بالکل دھوپ نہیں رہتی ۔ سورج کی بلندی کے ساتھ ہی ایسی جگہ سے شعاعیں دھوپ کی کم ہوتی جاتی ہیں اور سورج کے ڈوبنے کے وقت دھوپ ان کے غار کی طرف اس کے دروازے کے شمال رخ سے جاتی ہے مشرق جانب سے ۔ علم ہیئت کے جاننے والے اسے خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ جنہیں سورج چاند اور ستاروں کی چال کا علم ہے ۔ اگر غار کا دروازہ مشرق رخ ہوتا تو سورج کے غروب کے وقت وہاں دھوپ بالکل نہ جاتی اور اگر قبلہ رخ ہوتا تو سورج کے طلوع کے وقت دھوپ نہ پہنچتی اور نہ غروب کے وقت پہنچتی اور نہ سایہ دائیں بائیں جھکتا اور اگر دروازہ مغرب رخ ہوتا تو بھی سورج نکلنے کے وقت اندر دھوپ نہ جا سکتی بلکہ زوال کے بعد اندر پہنچتی اور پھر برابر مغرب تک رہتی ۔ پس ٹھیک بات وہی ہے جو ہم بیان نے کی فللہ الحمد تقرضہم کے معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے کئے ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ، نہ اس سے کسی شرعی مقصد کا حصول ہوتا ہے ۔ پھر بھی بعض مفسرین نے اس میں تکلیف اٹھائی ہے کوئی کہتا ہے وہ ایلہ کے قریب ہے کوئی کہتا ہے نینویٰ کے پاس ہے کوئی کہتا ہے ، روم میں ہے کوئی کہتا ہے بلقا میں ہے ۔ اصل علم اللہ ہی کو ہے وہ کہاں ہے اگر اس میں کوئی دینی مصلحت یا ہمارا کوئی مذہبی فائدہ ہوتا تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں بتا دیتا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کرا دیتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہیں جو جو کام اور چیزیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی تھیں ان میں سے ایک بھی ترک کئے بغیر میں نے بتا دی ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان فرما دی اور اس کی جگہ نہیں بتائی ۔ فرما دیا کہ سورج کے طلوع کے وقت ان کے غار سے وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت انہیں بائیں طرف چھوڑ دیتا ہے ، وہ اس سے فراخی میں ہیں ، انہیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے جل جاتے یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب انہیں اس غار میں پہنچایا جہاں انہیں زندہ رکھا دھوپ بھی پہنچے ہوا بھی جائے چاندنی بھی رہے تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ نقصان پہنچے ۔ فی الواقع اللہ کر طرف سے یہ بھی کامل نشان قدرت ہے ۔ ان نوجوانوں موحدوں کی ہدایت خود اللہ نے کی تھی ، یہ راہ راست پا چکے تھے کسی کے بس میں نہ تھا کہ انہیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔