Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَ تَحۡسَبُهُمۡ اَيۡقَاظًا وَّهُمۡ رُقُوۡدٌ ‌‌ۖ وَنُـقَلِّبُهُمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ‌‌ ۖ وَكَلۡبُهُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَيۡهِ بِالۡوَصِيۡدِ‌ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَيۡهِمۡ لَوَلَّيۡتَ مِنۡهُمۡ فِرَارًا وَّلَمُلِئۡتَ مِنۡهُمۡ رُعۡبًا‏ ﴿18﴾
آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہیں ، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی ۔
و تحسبهم ايقاظا و هم رقود و نقلبهم ذات اليمين و ذات الشمال و كلبهم باسط ذراعيه بالوصيد لو اطلعت عليهم لوليت منهم فرارا و لملت منهم رعبا
And you would think them awake, while they were asleep. And We turned them to the right and to the left, while their dog stretched his forelegs at the entrance. If you had looked at them, you would have turned from them in flight and been filled by them with terror.
Aap khayal kertay hain kay woh beydaar hain halankay woh soye huye thay khud hum hi unhen dayen bayen kerwaten dilaya kertay thay unn ka kutta bhi chokhat per apney hath paon phelaye huye tha. Agar aap jhank ker unhen dekhna chahatay to zaroor ultay paon bhag kharay hotay aur unn kay rob say aap per dehshat chah jati.
تم انہیں ( دیکھ کر ) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے ، ( ١١ ) اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے ، اور ان کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ( بیٹھا ) تھا ۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ، اور تمہارے اندر ان کی دہشت سما جاتی ۔
اور تم انھیں جاگتا سمجھو ( ف۲۲ ) اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں ( ف۲۳ ) اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر ( ف۲٤ ) اے سننے! والے اگر تو انھیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے ( ف۲۵ )
تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ سو رہے تھے ۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے ۔ 14 اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا ۔ اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی ۔ 15
اور ( اے سننے والے! ) تو انہیں ( دیکھے تو ) بیدار خیال کرے گا حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم ( وقفوں کے ساتھ ) انہیں دائیں جانب اور بائیں جانب کروٹیں بدلاتے رہتے ہیں ، اور ان کا کتا ( ان کی ) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ( بیٹھا ) ہے ، اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لیتا تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا اور تیرے دل میں ان کی دہشت بھر جاتی
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :14 یعنی اگر باہر سے کوئی جھانک کر دیکھتا بھی تو ان سات آدمیوں کے وقتاً فوقتاً کروٹیں لیتے رہنے کی وجہ سے وہ یہی گمان کرتا کہ یہ بس یونہی لیٹے ہوئے ہیں ، سوئے ہوئے نہیں ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :15 یعنی پہاڑوں کے اندر ایک اندھیرے غار میں چند آدمیوں کا اس طرح موجود ہونا اور آگے کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا کہ جھانکنے والے ان کو ڈاکو سمجھ کر بھاگ جاتے تھے ، اور یہ ایک بڑا سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کے حال پر اتنی مدت تک پردہ پڑا رہا ۔ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوئی کہ اندر جا کر کبھی اصل معاملے سے با خبر ہوتا ۔
ایک آنکھ بند ایک کھلی یہ سو رہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے ، ایک کھلی ہوتی ہے پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ینام باحدی مقلتیہ ویتقی باخری الرزایا فہو یقطان نائم جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لئے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھا جائے ، کروٹیں گل نہ جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے ، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں ۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہریدار کے بازو زمین پر ٹکاتے ہوئے بیٹھا ہوا ہے دروازے کے باہر اس لئے ہے کہ جس گھر میں کتا تصویر جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے ۔ جیسے کہ ایک حسن حدیث میں وارد ہوا ہے ۔ اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آ گئی ہے ۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئے نا اس کتے کی کتنی شان ہو گئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا ۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے ۔ ان کے ساتھ ہجرت میں تھے ۔ ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنفر تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام مہموت تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے ، حضرت حواجدہ میں ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں ۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا ۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں ، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں ۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے بےدلیل زبان کھولنا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا یہ اس لئے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنا لیں کوئی جرات کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الہی متقضی ہے باآرام سوتے رہیں ۔ جو انہیں دیکھتا ہے مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے ۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے ، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لئے محال ہے ۔