Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَكَذٰلِكَ بَعَثۡنٰهُمۡ لِيَتَسَآءَلُوۡا بَيۡنَهُمۡ‌ ؕ قَالَ قَآٮِٕلٌ مِّنۡهُمۡ كَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ ؕ قَالُوۡا رَبُّكُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَكُمۡ بِوَرِقِكُمۡ هٰذِهٖۤ اِلَى الۡمَدِيۡنَةِ فَلۡيَنۡظُرۡ اَيُّهَاۤ اَزۡكٰى طَعَامًا فَلۡيَاۡتِكُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡهُ وَلۡيَتَلَطَّفۡ وَلَا يُشۡعِرَنَّ بِكُمۡ اَحَدًا‏ ﴿19﴾
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے ۔ اب توتم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے ، اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے ۔
و كذلك بعثنهم ليتساءلوا بينهم قال قاىل منهم كم لبثتم قالوا لبثنا يوما او بعض يوم قالوا ربكم اعلم بما لبثتم فابعثوا احدكم بورقكم هذه الى المدينة فلينظر ايها ازكى طعاما فلياتكم برزق منه و ليتلطف و لا يشعرن بكم احدا
And similarly, We awakened them that they might question one another. Said a speaker from among them, "How long have you remained [here]?" They said, "We have remained a day or part of a day." They said, "Your Lord is most knowing of how long you remained. So send one of you with this silver coin of yours to the city and let him look to which is the best of food and bring you provision from it and let him be cautious. And let no one be aware of you.
Issi tarah hum ney unhen jaga ker utha diya kay aapas meinpooch gooch kerlen. Aik kehney walay ney kaha kay kiyon bhaee tum kitney dair thehray rahey? Unhon ney jawab diya kay aik din ya aik din say bhi kum. Kehney lagay kay tumharay thehray rehney ka ilm ba-khoobi Allah Taalaa hi ko hai. Abb to tum apney mein say kissi ko apni yeh chandi dey ker shehar bhejo woh khoob dekh bhaal ley kay shehar ka kaun say khana pakeeza tar hai phir ussi mein say tumharay liye khaney kay liye ley aaye aur boht ehtiyat aur narmi barttay aur kissi ko tumhari khabar na honey dey.
اور ( جیسے ہم نے انہیں سلایا تھا ) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں ۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا : تم اس حالت میں کتنی دیر رہے ہوگے؟ کچھ لوگوں نے کہا : ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم ( نیند میں ) رہے ہوں گے ۔ دوسروں نے کہا : تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر اس حالت میں رہے ہو ۔ اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو ، وہ جاکر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کون سے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا ( مل سکتا ) ہے ۔ ( ١٢ ) پھر تمہارے پاس وہاں سے کچھ کھانے کو لے آئے ، اور اسے چاہیے کہ ہوشیاری سے کام کرے ، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے ۔
اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا ( ف۲٦ ) کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں ( ف۲۷ ) ان میں ایک کہنے والا بولا ( ف۲۸ ) تم یہاں کتنی دیر رہے ، کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم ( ف۲۹ ) دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے ( ف۳۰ ) تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر ( ف۳۱ ) شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے کہ وہاں کونسا کھانا زیادہ ستھرا ہے ( ف۳۲ ) کہ تمہارے لیے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہیے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے ،
اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا 16 تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں ۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہو ، کتنی دیر اس حال میں رہے؟ “ دوسروں نے کہا” شاید دن پھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے ۔ “پھروہ بولے” اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حال میں گزرا ۔ چلو ، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے ۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کےلیے لائے ۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے ، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے ۔
اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں دریافت کریں ، ( چنانچہ ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم ( یہاں ) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم ( یہاں ) ایک دن یا اس کا ( بھی ) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں ، ( بالآخر ) کہنے لگے: تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم ( یہاں ) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو ، سو تم اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ حلال اور پاکیزہ ہے تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے اور اسے چاہئے کہ ( آنے جانے اور خریدنے میں ) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو ( بھی ) تمہاری خبر نہ ہونے دے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :16 یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا ، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا ۔
موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے ۔ جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ۔ کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لئے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لئے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ۔ کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت ( وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 21؀ ) 24- النور:21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14۝ۙ ) 87- الأعلى:14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لئے کا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں زکا الزرع اور جیسے شاعر کا قول ہے قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ واسبع ازکی من ثلاث والطیب پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لئے محال ہو جائے گا ۔