Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَلَبِثُوۡا فِىۡ كَهۡفِهِمۡ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيۡنَ وَازۡدَادُوۡا تِسۡعًا‏ ﴿25﴾
وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے ۔
و لبثوا في كهفهم ثلث ماة سنين و ازدادوا تسعا
And they remained in their cave for three hundred years and exceeded by nine.
Woh log apney ghaar mein teen so saal tak rahey aur no saal aur ziyada guzaray.
اور وہ ( اصحاب کہف ) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال ( سوتے ) رہے ۔
اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نو اوپر ، ( ف۵۲ )
اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے ، اور ﴿کچھ لوگ مدت کے شمار میں﴾ 9 سال اور بڑھ گئے ہیں ۔ 25
اور وہ ( اصحابِ کہف ) اپنی غار میں تین سو برس ٹھہرے رہے اور انہوں نے ( اس پر ) نو ( سال ) اور بڑھا دیئے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :25 اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے ۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی قول ۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے ۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی ، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے ۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے ۔
اصحاب کہف کتنا سوئے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے ، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھے ۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کر فرق پڑتا ہے ، اسی لئے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اسکا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کو صحیح علم ہے ، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے ، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے ۔ قتاردہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھیرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرأت مروی ہے ۔ لیکن قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لئے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں تین سو نو کا ان کا قول تامل نہیں ، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے ۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے ، یہی اختیار امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت دونوں منقطع ہیں ۔ پھر شاذ بھی ہیں ، جمہور کی قرأت وہی ہے جو قرآنوں میں ہے پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے ، ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے ، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے ۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں ، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں ۔ سب کے علم دیکھ رہا ہے ، سب کی باتیں سن رہا ہے ، خلق کا خالق ، امر کا مالک ، وہی ہے ۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں نہ کوئی شریک اور مشیر ہے وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے ، تمام نقائص سے دور ہے ۔