Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا كَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ هَشِيۡمًا تَذۡرُوۡهُ الرِّيٰحُ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ مُّقۡتَدِرًا‏ ﴿45﴾
ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال ( بھی ) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا ( نکلا ) ہے ، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
و اضرب لهم مثل الحيوة الدنيا كماء انزلنه من السماء فاختلط به نبات الارض فاصبح هشيما تذروه الريح و كان الله على كل شيء مقتدرا
And present to them the example of the life of this world, [its being] like rain which We send down from the sky, and the vegetation of the earth mingles with it and [then] it becomes dry remnants, scattered by the winds. And Allah is ever, over all things, Perfect in Ability.
Inn kay samney duniya ki zindagi ki misal ( bhi ) biyan kero jaisay pani jisay hum aasman say utartay hain iss say zamin ka sabza mila jula ( nikla ) hai phir akhir kaar woh choora choora hojata hai jisay hawayen urayen liye phirti hain. Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
اور ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی یہ مثال بھی بیان کردو کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا ، تو اس سے زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا ، پھر وہ ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ اسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں ۔ ( ٢٥ ) اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے ۔
اور ان کے سامنے ( ف۹۳ ) زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو ( ف۹٤ ) جیسے ایک پانی ہم نے آسمان اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا ( ف۹۵ ) کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں ( ف۹٦ ) اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے ( ف۹۷ )
اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، انہیں حیات دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہو گئی ، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ 41
اور آپ انہیں دنیوی زندگی کی مثال ( بھی ) بیان کیجئے ( جو ) اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے اتارا تو اس کے باعث زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا پھر وہ سوکھی گھاس کا چورا بن گیا جسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں ، اور اﷲ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :41 یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی ۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی ۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آجاتی ہے ۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غرے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے ۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے ۔
حیات و موت کا نقشہ دنیا اپنے زوال ، فنا ، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتا ہے اور ہزارہا پودے لہلہانے لگتے ہیں ، تروتازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز سے ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہو جاتے ہیں ، اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں ۔ اس حالت پر اللہ قادر تھا وہ اس حالت پر بھی قادر ہے ۔ عموما دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورہ حدید کی آیت ( اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ 24؀ ) 10- یونس:24 ) میں اور جیسے سورہ زمر کی آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ 27؀ ) 35- فاطر:27 ) میں ۔ جیسے سورہ حدید کی آیت ( اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ 20؀ ) 57- الحديد:20 ) میں صحیح حدیث میں بھی ہے ۔ دنیا سبز رنگ میٹھی ہے الخ پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں جیسے فرمایا ہے آیت ( زین للناس حب الشھوات ) الخ انسان کے لئے خواہشوں کی محبت مثلا عورتیں بیٹے خزانے وغیرہ مزین کر دی گئی ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ 15؀ ) 64- التغابن:15 ) تمہارے مال تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے ۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے ۔ مثلا پانچوں وقت کی نمازیں اور دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ اور الحمد اللہ اور اللہ اکبر اور لا حول ولا قوتہ الا باللہ العلی عظیم ) ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو موذن پہنچا آپ نے پانی منگوایا ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا ، آپ نے وضو کر کے فرمایا حضور علیہ السلام نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف ، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف ۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشا تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشا سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف ۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں اب اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا دعا ( سبحان اللہ والحمد اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ) ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں باقیات صالحات یہ ہیں دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد عمارہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ ۔ آپ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا سنو وہ پانچ کلمے ہیں دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے بجز الحمد للہ کے اور چار کلمات بتلائے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بجز لا حول کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ اور قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ والا لاہ الا اللہ واللہ اکبر ) یہ ہیں باقیات صالحات ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باقیات صالحات کی کثرت کرو پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت ، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا تکبیر تہلیل تسبیح اور الحمد للہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ ( احمد ) سالم بن عبداللہ کے مولی عبداللہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن کعب قریظی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی کام کے لئے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم سے کہہ دینا کہ فلان قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں ۔ مجھے ان سے کچھ کام ہے چنانچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم نے پوچھا کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور سبحان اللہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو حضرت محمد بن کعب نے فرمایا کیا تمہیں اس کلمے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے ۔ کہا سنو میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر حضرت ابراہیم کو دیکھا ، آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ آپ اپنی امت سے فرما دیجئے کہ وہ جنت میں اپنے لئے کچھ باغات لگا لیں اس کی مٹی پاک ہے ، اس کی زمین کشادہ ہے ۔ میں نے پوچھا وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا لاحول ولا قوۃالا باللہ بکثرت پڑھیں ۔ مسند احمد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات عشا کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر آپ نے فرمایا میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ لوگو سن رکھو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں ۔ مسند میں ہے آپ نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بیحد وزنی ہیں لا الہ اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لئے صبر کرے ۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے وہ قطعا جنتی ہے ۔ اللہ پر ، قیامت کے دن پر ، جنت دوزخ پر ، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں ۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا واقعی میں نے غلطی کی سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لئے لگام بن جائے ، بجز اس ایک کلمے کے پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو ۔ دعا ( اللہم انی اسالک الثبات فی الامر والعزیمتہ علی الرشد واسالک شکر نعمتک واسالک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسالک لساناصادقا واسالک من خیر ما تعلم واعوذ بک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب ) یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے ، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو بیشک غیب داں صرف تو ہی ہے ۔ حضرت سعید بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا ، پہاڑ پر چڑھا ، پھر اترا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ، اسلام قبول کیا ، آپ نے مجھے سورہ قل ھو اللہ احد اور سورہ اذا زلزلت سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے ۔ دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) ۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں ۔ اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے وضو کرے کلی کرے پھر سو سو بار سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ تبارک اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ واستغفر اللہ وصلی اللہ علی رسول اللہ ہے اور روزہ نماز حج صدقہ غلاموں کی آزادی جہاد صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ملتا رہتا ہے ۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے حضرت عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے مختار بتلاتے ہیں ۔