Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
وَيَوۡمَ نُسَيِّرُ الۡجِبَالَ و تَرَى الۡاَرۡضَ بَارِزَةً  ۙ وَّحَشَرۡنٰهُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡهُمۡ اَحَدًا‌ ۚ‏ ﴿47﴾
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے ۔
و يوم نسير الجبال و ترى الارض بارزة و حشرنهم فلم نغادر منهم احدا
And [warn of] the Day when We will remove the mountains and you will see the earth prominent, and We will gather them and not leave behind from them anyone.
Aur jiss din hum paharon ko chalayen gay aur zamin ko tu saaf khuli hui dekhay ga aur tamam logon ko hum ikhatta keren gay inn mein say aik ko bhi baqi na choren gay.
اور ( اس دن کا دھیان رکھو ) جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے ۔ ( ٢٧ ) اور تم زمین کو دیکھو گے کہ وہ کھلی پڑی ہے ، ( ٢٨ ) اور ہم ان سب کو گھیر کر اکٹھا کردیں گے ، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے ( ف۱۰۰ ) اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے ( ف۱۰۱ ) اور ہم انھیں اٹھائیں گے ( ف۱۰۲ ) تو ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے ،
فکر اس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے ، 42 اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے ، 43 اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ ﴿اگلوں پچھلوں میں سے﴾ ایک بھی نہ چھوٹے گا ، 44
وہ دن ( قیامت کا ) ہوگا جب ہم پہاڑوں کو ( ریزہ ریزہ کر کے فضا میں ) چلائیں گے اور آپ زمین کو صاف میدان دیکھیں گے ( اس پر شجر ، حجر اور حیوانات و نباتات میں سے کچھ بھی نہ ہوگا ) اور ہم سب انسانوں کو جمع فرمائیں گے اور ان میں سے کسی کو ( بھی ) نہیں چھوڑیں گے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :42 یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں ۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ ( النحل ۔ آیت ۸۸ ) ۔ تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :43 یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی ، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی ۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنایا ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :44 یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے ، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو ، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا ۔
سب کے سب میدان حشر میں اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ان کا ذکر کر رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے ۔ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر ۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی ۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی ۔ کوئی درخت پتھر گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے ، اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے ۔ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے ۔ نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی ، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بہی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے ، ایک میدان میں منزل کی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی ، کوئی کوڑا ، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں ، چھال ، لکڑی ، پتے ، کانٹے ، جرخت ، جھاڑ ، جھنکاڑ جو ملا لے آئے ۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اللہ سے ڈرتے رہو ، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں جو خیر و شر بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی اسے موجود پائے گا جیسے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا 30؀ۧ ) 3-آل عمران:30 ) اور آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اور آیت ( يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ Ḍ۝ۙ ) 86- الطارق:9 ) میں ہے تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہی ہر بدعہد کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے ۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے ۔ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ہاں البتہ درگزر کرنا ، معاف فرما دینا ، عفو کرنا ، یہ اس کی صفت ہے ۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا نیکیوں کو بڑھاتا ہے گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت جابر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لئے ایک اونٹ خریدا سامان کس کر سفر کیا مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر دروازے پر ہے انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ ؟ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) میں نے کہا جی ہاں ۔ یہ سنتے ہیں ، جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ کئے اور مجھے لپٹ گئے معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں اس لئے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا ، ننگے بدن ، بےختنہ ، بےسر و سامان پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے فرمائے گا کہ میں مالک ہوں میں بدلے دلوانے والا ہوں کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، ننگے بدن ، بےمال و اسباب ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا اس کے اور بھی بہت شاہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) کی تفسیر میں اور آیت ( اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) کی تفسیر میں بیان کئے ہیں ۔