Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
فَاَ تۡبَعَ سَبَبًا‏ ﴿85﴾
وہ ایک راہ کے پیچھے لگا ۔
فاتبع سببا
So he followed a way
Woh aik raah kay peechay laga.
جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے ۔
تو وہ ایک سامان کے پیچھے چلا ( ف۱۸۲ )
اس نے ﴿پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا﴾ سروسامان کیا ۔
پس وہ ( مزید ) اسباب کے پیچھے چل پڑا
ذوالقرنین کا تعارف ۔ ذوالقرنین ایک راہ لگ گئے زمین کی ایک سمت یعنی مغربی دانب کوچ کر دیا ۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے ۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے چلتے رہے یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گے ۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے ۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے ۔ حضرت ذوالقرنین پہنچ گئے ۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سورج مدتوں ان کی پشت پر غروب ہوتا رہا یہ بےبنیاد باتیں ہیں اور عموما اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بددینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بےمروغ ہیں ۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا حمئۃ یا تو مشتق ہے حماۃ سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28؀ ) 15- الحجر:28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر حضرت نافع نے سنا کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہوجاتا تھا ۔ ایک قرأت میں فی عین حامیۃ ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہوجاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلس ڈالتا ۔ اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی بہت ممکن ہے کہ یہ عبداللہ بن عمرو کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے واللہ اعلم ۔ ابن حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ کہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے ( عین حامیۃ ) پڑھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم تو حمئۃ پڑھتے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کس طرح پڑھتے ہیں انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے ، وہی اس کے پورے عالم ہیں ۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ یہ سب قصہ سن کرا بن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق ومغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ کے حکم نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں خلب ، ثاط اور حرمد ۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی ، کیچڑا اور سیاہ ۔ اسی وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا یہ جو کہتے ہیں لکھ لو ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سورہ کہف کی تلاوت حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے سنی اور جب آپ نے حمئۃ پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کو سنا تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر وظلم کریں یا ان میں عدل وانصاف کریں ۔ اس پر ذوالقرنین نے اپنے عدل وایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر وشرک پر اڑا رہے گا اسے تو ہم سزا دیں گے قتل وغارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہو جائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے واللہ اعلم ۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور دردناک وعذاب کرے گا ۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے ۔ اور جو ایمان لائے ہماری توحید کی دعوت قبول کر لے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کر لے اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خودہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے ۔